اسلام آباد ہائیکورٹ کی منتقلی، پرانی و نئی عمارت کا تقابلی جائزہ

پیر 19 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے قیام سے ہی اس کے لیے شاہراہ دستور پر واقع ایک وسیع و عریض پلاٹ مختص تھا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر اعلیٰ عدالت ایک عارضی انتظام کے تحت سیکٹر جی 10 میں ہی کام کرتی رہی اور اصل عمارت میں منتقلی میں اسے 13 برس کا عرصہ لگ گیا۔

کل 6 ارب  70 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی عمارت شاندار طرز تعمیر کی حامل ہے۔ اسلام آباد کی نئی اور پرانی عمارتوں میں فرق کو جانچنے کے لیے اور دونوں عمارتوں کا تقابلی جائزہ لینےکے لیے وی نیوز نے دونوں عمارتوں کا رخ کیا۔

اگر رقبے کی بات کی جائے تو 5 ایکڑ پر محیط نئی عمارت پرانی سے زیادہ بڑی اور کثیرالمنزلہ ہے۔ نئی عمارت کے کمرہ ہائے عدالت پرانی عمارت سے بہت بڑے ہیں اور یہاں وکلا اور سائلین کے بیٹھنے کے لیے کافی جگہ موجود ہے جب کہ پرانی عمارت میں کمرہ عدالت کافی چھوٹے ہوا کرتے تھے اور اسی وجہ سے اکثر اوقات بڑے مقدمات میں عدالت کے اندر گنجائش کم پڑ جاتی اور ایک گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔

نئی عمارت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا کمرہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت سے بھی بڑا ہے۔ سینٹرل ایئر کنڈیشننگ سسٹم کے باعث نئی عمارت موسم کی سختیوں کے حوالے سے بھی کافی بہتر ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی عمارت میں 14 کورٹ رومز تعمیر کیے گئے ہیں جب کہ اس وقت ہائی کورٹ میں8 ججز کام کر رہے ہیں لیکن اس کے برعکس پرانی عمارت میں 7 کمرہ عدالت تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی تاریخ

14 اگست 2007 کو سابق صدر پرویز مشرف کے صدارتی حکمنامے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام عمل میں آیا لیکن 31 جولائی 2009 کو ایک درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قیام کو غیر آئینی قرار دے دیا جس کے بعد آئین میں 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 منظور ہوا اور جسٹس اقبال حمید الرحمٰن اسلام آباد ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس بنے۔ ان کے بعد جسٹس محمد انور کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور پھر جسٹس عامر فاروق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ اہم کیوں ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام سے پہلے فیڈریشن کے خلاف تمام مقدمات لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں دائر ہوتے اور زیر سماعت آتے تھے لیکن عدالت عالیہ اسلام آباد کے قیام کے بعد وفاقی وزارتوں، سینیٹ، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور دیگر وفاقی حکومت سے متعلق تمام مقدمات اس نئی عدالت میں منتقل ہو گئے اور پھر بے شمار سیاسی نوعیت کے مقدمات بھی یہاں منتقل ہو گئے۔

شاہراہ دستور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی منتقلی کتنی سودمند؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نئی عمارت میں کام 22 مئی 2023 سے شروع کیا۔ اس کے مقام کی منتقلی کے حوالے سے مختلف آراء ہیں لیکن سب سے زیادہ مضبوط دلیل تو یہی ہے کہ چوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے یہی قطعہ ارضی شروع سے مختص تھا تو لامحالہ اسے یہیں منتقل ہونا تھا، عدالت عالیہ کی پرانی عمارت میں جب بھی حساس نوعیت کے مقدمات کی سماعت ہوتی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اردگرد کی تمام سڑکوں کو بند کر دیتے جس سے علاقہ مکینوں کی مشکلات میں کافی اضافہ ہو جاتا۔

اب چوں کہ نئی عمارت چونکہ ریڈ زون میں واقع ہے اور اس علاقے میں سکیورٹی کے انتظامات پہلے ہی سے موجود ہیں تو اس سے اردگرد کی سڑکوں کو بلاک کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہاں مگر سائلین کی ایک مشکل میں اضافہ ضرور ہو گیا کیوں کہ ریڈزون کو اکثر اوقات بند کر دیا جاتا ہے اور سائلین وہاں پہنچ نہیں پاتے جس کے لیے انتظامیہ کو کوئی حل نکالنے کی ضرورت ہے۔

نئی عمارت تمام جدید سہولیات سے لیس ہے

نئی عمارت میں وکلا کے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ عمارت کی اوپری منزلوں تک جانے کے لیے لفٹس لگائی گئی ہیں جب کہ پبلک کے لیے واش رومز کا انتظام بھی کافی بہتر ہے۔

عدالتوں کی عمارتیں خواہ کتنی ہی شاندار کیوں کہ ہوں لیکن عدل سے خالی ہوں تو بے فائدہ ہوتی ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہمارا عدالتی نظام ان عالیشان عمارتوں کی طرح ہی شاندار ہو جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp