فروی 2023 میں جب میں ملک سے باہر جانے لگا تو میری تین سالہ بیٹی ائیر پورٹ پر مجھے چھوڑنے آئی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ میں اس سے دور جانے لگا ہوں۔ گھر سے ائیر پورٹ تک وہ میری گود میں خوشی خوشی کھیلتی آئی۔
بیٹیاں اپنے باپ کے بہت قریب ہوتی ہیں۔ میں کام سے چاہے جتنی دیر بعد گھر پہنچوں وہ میرا انتطار کرتی تھی۔خاندان سے دوری خاص طور پربچوں کو چھوڑ کر روزی کی تلاش میں پردیس جانا کسی بھی شخص کے لیے آسان نہیں ہوتا اس لیے جانے سے پہلے ائیر پورٹ پر بھی چیک ان کرنے سے پہلے میں نے تھوڑا وقت مزید اپنے بچوں کے ساتھ گزارا اور جب بیگ لے کر میں نے سب کو خدا حافظ کہا تو میری بیٹی مجھ سے لپٹ گئی مجھے چھوڑ نہیں رہی تھی۔اسکی سسکیوں کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔
اپنے چاہنے والوں خاص طور پر معصوم بچوں کو چھوڑکر پردیس جانے کا کرب صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔ یونان کشتی حادثےنے مجھ سمیت ہر پاکستانی کی آنکھ اشک بار کردی۔ کشتی حادثے میں سوار چوہدری محمد ناصر اور اسکے بیٹے کی کہانی پردیس میں رہنے والوں کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ باپ سے جدائی کے بعد پانچ سالہ بیٹے کا انتقال اور اس پر ستم یہ کہ باپ اپنے بیٹے کے جنازے پر شرکت بھی نہیں کرسکتا کیونکہ ایجنٹوں نے محمد ناصر کے تمام سفری دستاویزات ضبط کیے ہوئے تھے۔ کسی مہذب معاشرے کا ضمیر جنجھوڑنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے ایسے حادثات لگاتار ہورہے ہیں لیکن حکام کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
- انسانی سمگلنگ کا کام پاکستان میں دہائیوں سے ہو رہا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سمگلنگ کی باقاعدہ طور پر سرپرستی سرکاری افسران کرتے ہیں اور کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے اس گھناونے جرم کے زریعے کما رہے ہیں۔
ماضی قریب میں حکومت پاکستان کو متعدد یورپی ممالک انفرادی طور پر اور یورپی یونین کے پلیٹ فارم سے بھی متنبہ کرچکے ہیں کہ پاکستان سے انسانی سمگلنگ سرکاری افسران کی سرپرستی میں کی جارہی ہے لہٰذہ اسکا کوئی سدباب کیا جائے۔ اس حوالے سے ایک سنجیدہ کوشش کی بھی گئی اور ایف آئی اے نے ایک ہائی لیول کمیٹی تشکیل دے کر یورپی ممالک کی شکایت پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے 27 اکتوبر 2017 میں کیپٹن محمد شعیب کی سربراہی میں ایک چار رکنی کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے سائنسی اور فارنزک ثبوتوں کی بنیاد پر اپنی تحقیقات مکمل کی اور ڈی جی ایف آئی اے کو پیش کی۔ اس رپورٹ میں ہوشربا قسم کے انکشافات کیے گئے تھے جس کے مطابق ایف آئی اے کے اس وقت ڈائریکٹر لیول کے کچھ سینئیر افسران تک انسانی سمگلنگ میں ملوث پائے گئے۔ بجائے اسکے کہ اس تحقیقاتی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے اس گھناونے کام میں ملوث افسران کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی عدالت نے حکم صادر کردیا کہ اس معاملے کی دوبارہ سے انکوائری کرائی جائے۔
وقت گزرتا ہے، اور عمران خان کی سربراہی میں نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ انسانی سمگلنگ میں ملوث ایف آئی اے کے سینئر افسران کے خلاف انکوائری کا حکم دینے والے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے اور اسکے بعد اس گھناونے جرم میں ملوث ایف آئی اے افسران کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ انسانی سمگنلگ کے اس گھناونے کام میں جس ایف آئی کے سینئیر افسر کو مرکزی کردار ٹھہرایا گیا تھا، عمران خان نے اسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا آئی جی لگا دیا اور یوں یورپین یونین اور دیگر ممالک کےاحتجاج اور تحفظات کے باوجود یہ معاملہ دبا دیا جاتا ہے
اس رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2017 تک مختلف یورپی ممالک نے ۸۵۱۳ پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا جو جعلی سفری دستاویزات کے زریعے وہاں پہنچے تھے۔حیران کن امر یہ بھی ہے کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ٹریول ایجنسیوں میں ان سرکاری افسران کے فیملی ممبران حصہ دار ہوتے ہیں اور ایسا ہی انکشاف اس رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا۔انسانی سمگلنگ کا یہ کام انتہائی منافع بخش ہے اور اس منافع میں سرکاری افسران بھی برابر کے حصہ دارہیں ۔
لوگوں کا استحصال اور برین واش کرکے یورپ کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت تو زندہ سلامت شاید یورپ کے ساحلوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن بہت سارے چوہدری ناصر جیسے بھی ہوتے ہیں جو ایک اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے ہی سمندر برد ہوجاتے ہیں۔
یہ سلسلہ نہ پہلے رکا تھا نہ ہی اب رکے گا اگر حکومت نے صرف وقتی طور پر عوام کے جذبات کو ٹھندا کرنے کے لیے کاروائیاں کیں تو ممکن ہے مستقبل قریب میں پھر ایسے کئی بدقسمت پاکستانیوں کی خبر ملے جوسہانے مستقبل کا خواب سجائے سمندر برد ہوگئے۔ لیکن اگر یہ انسانی سمگلنگ کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو عنقریب آپ دیکھیں گے کہ یورپین یونین کی طرف سے پاکستان کو کوئی سخت وارننگ دی جائے اور معاملہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے معاملے کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی سمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کڑی سے کڑی کارروائی کی جائے۔