بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت نے صوبے کا پانچواں آئندہ مالی سال 24-2023 کا بجٹ کابینہ کے اتفاق کے بعد ایوان میں پیش کر دیا۔
بجٹ کا کل حجم 750 ارب روپے پر محیط ہے جس میں غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 437 ارب اور پی ایس ڈی پی کے لیے 229 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میں آمدن کا کل تخمینہ 701 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ خسارہ 49 ارب روپے ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق وفاق کی جانب سے بلوچستان کو آئندہ مالی سال میں پاکستان وفاقی ٹرانسفرز کی مد میں 521 ارب، سوئی گیس لیزایکسٹینشن بونس کی مد میں 55 ارب، فارن فنڈڈ پراجیکٹس اسسٹنس کی مد میں 37 ارب، کیپیٹل محصولات کی مد میں 21 ارب جبکہ کیش اینڈ کیری کی مد میں 10 ارب روپے دے گا۔
مزید پڑھیں
حکومت بلوچستان نے صوبائی محصولات کی مد میں رواں سال صرف 57 ارب روپے دیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وفاق کی جانب سے جاری کردہ فنڈز نے رواں مالی سال کے بجٹ میں 97 فیصد حصہ ڈالا جبکہ صوبہ بجٹ کا صرف 3 فیصد حصہ دینے میں کامیاب ہوا جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنی آمدن خود پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن بلوچستان میں ٹیکس جمع نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلوچستان میں ٹیکس کلیکشن کا محکمہ غیر فعال ہے: محفوظ علی خان
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر محفوظ علی خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساتویں این ایف سی کے بعد تمام تر صوبوں نے اپنی ٹیکس کلیکشن اتھارٹی قائم کی لیکن بلوچستان نے 4 سال تک وفاقی حکومت کو ٹیکس کلیکشن کی ذمہ داری سونپے رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکس کلیکشن کا محکمہ اس طرح فعال نہ ہو سکا جس طرح دیگر صوبوں میں فعال ہے۔
محفوظ علی نے کہا کہ ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے صوبے میں نہ تو بہتر قانون سازی کی گئی اور نہ ادارے کو مضبوط کیا گیا۔
محفوظ علی خان کے مطابق بلوچستان کا بجٹ میں اضافی بوجھ بڑھنے سے بھی صوبے کا انحصار وفاق پر زیادہ رہا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران صوبے کا زیادہ تر بجٹ امن و امان پر خرچ ہوتا رہا اس کے علاوہ پنشن اور تنخواہوں کا بوجھ بھی بڑھتا جارہا ہے جو 2030 تک 110 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر صوبائی حکومت نے موثر اقدامات نہ کیے تو صوبے کا انحصار وفاق پر مزید بڑھتا جائے گا۔
محفوظ علی خان کے مطابق وفاق سے آنے والے تمام فنڈز تنخواہوں اور پنشن کی مد میں خرچ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری جانب بیڈ گورننس کی وجہ سے ایسے منصوبے پی ایس ڈی پی میں ڈالے جاتے ہیں جن پر آدھا کام کیا جاتا ہے جبکہ آدھے کو مکمل طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
محفوظ علی خان کے مطابق صوبے میں جب تک گڈ گورننس اور ٹیکس کلیکشن کا موثر نظام نہ ہو تب تک صوبہ وفاقی فنڈز اور گرانٹس پر منحصر رہے گا۔
کیا بلوچستان کا پیش ہونے والا بجٹ عوام دوست ہے؟
بلوچستان اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر جان محمد جمالی کی زیرصدارت شروع ہوا جس میں بلوچستان کے نئے مالی سال 24-2023 کا بجٹ وزیرخزانہ زمرک خان اچکزئی نے ایوان میں پیش کیا۔
بجٹ کا کل حجم 750 ارب روپے ہیں جس میں غیرترقیاتی مد میں 437 جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 229 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے 4389 نئی اسامیاں رکھی گئیں ہیں جبکہ گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت کے شعبہ کے لیے مجموعی طور پر 87 ارب روپے اورتعلیم کے فروغ کے لیے مجموعی طور پر 77 ارب 21 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ امن وامان کے قیام کے لیے 53 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پینے کے صاف پانی کے لیے 31 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئے بجٹ میں گوادر کو خصوصی معاشی زون قرار دیتے ہوئے تمام صوبائی ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق حکومت بلوچستان نے آئندہ آنے والے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ تیار کیا ہے جس میں اپوزیشن سمیت تمام اتحادیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کو خوش کیا گیا ہے۔ ایسے میں بلوچستان کے لیے کوئی امید کی نئی کرن نظر نہیں آ رہی۔