سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

بدھ 21 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ ن کے تاحیات پارٹی قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور پھر اس کے بعد ان کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تو ان کو احتساب عدالت سے سنائی جانے والی سزائیں ہیں جن کے خلاف ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی وطن واپسی تک زیر التوا ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمانی سیاست میں ان کی واپسی میں سپریم کورٹ سے نااہلی بھی شامل ہے۔

میاں نواز شریف کے خلاف زیر التوا مقدمات

6 جولائی 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 24 دسمبر 2018 کو انہیں العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ستمبر 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں سزائیں معطل کر دی تھیں، جبکہ 29 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی ان کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے ایک ماہ بعد 19 نومبر 2019 کو وہ لاہور سے لندن کے لیے روانہ ہو گئے۔

24 جون 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کرپشن ریفرنسز میں اپیلوں پر مسلسل غیر حاضری کی وجہ سے ان کا حق سماعت ختم کرتے ہوئے انہیں فیوجیٹو فرام لا یعنی ’بھگوڑا‘ قرار دے دیا تھا۔

عام انتخابات میں نواز شریف انتخابی مہم چلا پائیں گے؟

ایک ایسے وقت میں جب عام انتخابات بہت قریب ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین اکثر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد پارٹی قائد میاں نواز شریف کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف الیکشن مہم کی قیادت کریں۔ چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر میاں نواز شریف وطن واپس آتے ہیں تو وہ ان کی زیر قیادت ایک عام ورکر کی طرح کام کرنا پسند کریں گے۔

پاکستان مسلم ن کی اتحادی جماعتیں بھی ایسے قوانین بنانے میں ان کی مددگار نظر آتی ہیں جن کا بظاہر مقصد میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہی ہے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے ایسی قانون سازی کی کوششوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر تو سپریم کورٹ نے حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے چند روز قبل پارٹی کی جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار تو کر دیا لیکن عملی طور پر نواز شریف کی وطن واپسی میں حائل رکاوٹوں کو کس طرح سے دور کیا جا سکے گا؟

شوکت عزیز صدیقی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے سامنے ہم نے جب یہ سوال رکھا تو انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی ضمانت چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی عدم حاضری کی بنا پر خارج کی تھی اس لیے نواز شریف اگر لاہور یا کراچی میں لینڈ کرتے ہیں تو لاہور ہائی کورٹ یا سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ متعلقہ عدالت یعنی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے جہاں بہت ممکن ہے کہ ان کی ضمانت بحال کر دی جائے جب وہ عدالت میں اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کریں گے اور بتائیں گے کہ وہ بغرضِ علاج لندن میں مقیم رہے۔

شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے میاں نواز شریف کو جو فیوجیٹو فرام لا قرار دیا، یہ درست نہیں تھا کیونکہ یہ اصطلاح ایک ایسے شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو غائب ہو جائے اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں گیا ہے، میاں نواز شریف کے کیس میں تو واضح ہے کہ وہ عدالت کی اجازت سے لندن گئے۔

میرٹ پر ضمانت

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ چونکہ نواز شریف کی پہلی ضمانت میڈیکل یا کسی اور بنا پر نہیں بلکہ میرٹ پر تھی اس لیے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وہ جب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے انہیں ضمانت مل جائے گی لیکن انہیں اپنی غیر حاضری کا جواز پیش کرنا ہو گا۔

سپریم کورٹ ازخود اختیارات قانون سازی

پارلیمانی سیاست میں میاں نواز شریف کی واپسی کے لیے ان کو سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت نااہلی کو بھی ختم کروانا ہے۔ جس کے لیے پارلیمنٹ نے تو 2 ایکٹ آف پارلیمنٹ منظور کر دیے لیکن ان دونوں ایکٹس کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میرا شروع دن سے موقف ہے کہ اس سلسلے میں آئینی ترمیم ہونی چاہیے نا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ایسا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں مثلاً الیکشن کمیشن اور سروس ٹربیونل سے متعلق قوانین کے بارے میں آپ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے سے ترمیم کر سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات سے متعلق فیصلوں کے بارے میں اپیل کا حق دینے کے لیے آپ کو آئینی ترمیم ہی کرنی پڑے گی۔

نااہلی کے خلاف بل ٹھیک ہے

سینیٹ میں آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت نااہلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس قانون میں پہلے سے مدت کا تعین نہیں تھا اس لیے اس میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے سے نااہلی کی مدت کا تعین درست اقدام ہے۔

جہانگیر جدون

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے بھی میاں نواز شریف کی واپسی کے متعلق تقریباً انہی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں میاں نواز شریف کی غیرحاضری کے باعث خارج ہو گئی تھیں لیکن جونہی وہ ایک بار پھر سے ان اپیلوں کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں حاضر ہوں گے تو یہ اپیلیں بحال ہو جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp