دو برس قبل آج ہی کے دن پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سرکردہ رہنما اور سینیٹر عثمان خان کاکڑ کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق عثمان کاکڑ کے سر پر لگی گہری چوٹ ان کی موت کا باعث بنی تھی۔
دراصل اپنے انتقال سے تین روز قبل عثمان کاکڑ کوئٹہ میں واقع اپنی آبائی رہائشگاہ کے ایک کمرے میں بے ہوشی کی حالت میں پائے گئے، جس کے بعد انہیں کراچی کے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جسم کے کسی حصے پر تشدد کے نشانات نہیں پائے گئے۔
عثمان خان کاکڑ کی پراسرار موت کو بیشتر نے طبعی قرار دیا تاہم ان کے اہل خانہ اور ہم خیال افراد اسے قتل کا ہی نام دیتے رہے۔ ان کی موت کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا جوڈیشل کمیشن چند ماہ بعد ہی غیر فعال ہونے کے بعد ختم ہوگیا تھا، کیونکہ ان کے ہم خیال دوستوں اور اہل خانہ سمیت کوئی بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے عثمان خان کاکڑ کے پرانے سیاسی ساتھی اور رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے بتایا کہ انہوں نے پہلے دن ہی مطالبہ کیا تھا کہ عثمان خان کاکڑ کے قتل سے متعلق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں اعلٰی عدالتی کمیشن بنایا جائے تاکہ معاملے کی شفاف تحقیقات ممکن بنائی جاسکیں۔

نصر اللہ زیرے کے مطابق ان کی خواہش کے برعکس صوبائی سطح پر ایک عدالتی کمیشن قائم کیا گیا جس کے سامنے کوئی پیش نہیں ہوا۔ ان کا دعوٰی تھا کہ عثمان خان کاکڑ کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا۔
’عثمان خان کاکڑ نے 10 مارچ 2021 کو سینیٹ اجلاس میں کہا تھا کہ انہیں سیاسی نظریات اور قومی بیانیے سے دست بردار کرانے کے لیے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ بعد میں احسان اللہ احسان نے بھی بتایا کہ اسے جن چند لوگوں کے راستے سے ہٹانے کے لیے ایک فہرست دی گئی تھی، اس میں عثمان خان کاکڑ سر فہرست تھے۔‘
Usman Khan Kakar Shaheed. A Powerful voice for the equal rights of Sindhi, Baloch, Pashtoon, Saraiki, Punjabi, of all provinces and champion of constructional federal parliamentary democracy.
May his soul rest in eternal peace.
@wahdatpkmap @Azmirkhan1997 @a_siab pic.twitter.com/fgF4T9mpzv— Ayub Minhas (@daribaalam) June 15, 2023
نصر اللہ زیرے کے مطابق عثمان خان کاکڑ نے اپنے آخری دنوں میں اس بات کا انکشاف کیا کہ انہیں مختلف خفیہ اداروں سے دھمکیاں بھی موصول ہو رہی ہیں تاکہ وہ اپنے بیانیے سے دستبردار ہو جائیں۔
عثمان خان کاکڑ کا قتل ہوا یا انہیں ایک طبعی موت کا سامنا کرنا پڑا، اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد تاحال موجود نہیں جب کہ ان کی پراسرار موت کی تحقیقات کا معاملہ بھی لگ بھگ دفن ہو کر رہ گیا ہے۔