ٹائٹینک جہاز کو ڈوبے ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اس کی تلخ یادیں آج بھی موجود ہیں۔
ٹائٹینک کو منحوس تصور کرتے ہیں
چند روز قبل ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لیے سیاحوں کو لے جانے والی آبدوز کے سمندر کی گہرائیوں میں غائب ہو نے اور پھر اس کی غرقابی کی خبریں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں، پاکستان کے تناظر میں اس خبر کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس آبدوز میں 2 پاکستانی نژاد مسافر شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان بھی شامل تھے۔
ٹائٹینک جہاز سے متعلق ہمیشہ سے ایک رائے یہ بھی قائم ہے کہ اس سے متعلق کوئی بھی تحقیق کبھی مکمل نہیں ہو سکی۔ بعض لوگ اسے منحوس بھی تصور کرتے ہیں۔
سبی میں بیلوں کی قربانی
بلوچستان کا ذکر اس کہانی میں اس وقت آتا ہے جب ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے چند افراد اس ہولناک واقع کے رونما ہونے پر علاقے میں باقاعدہ بیل ذبح کرکے خیرات کرتے ہیں۔
ٹائٹینک جہاز کا حادثہ 14 سے 15 اپریل کی درمیانی شب 1912کو بحرِ اوقیانوس میں پیش آیا تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں 15 سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ان دنوں متعدد چھوٹے شہروں کی کل آبادی ہی 15 سو ہوا کرتی تھی۔
ٹائٹینک جہاز کی غرقابی کا جب بھی ذکر ہوتا آتا تھا تو بلوچستان کے ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے چند افراد اللہ کے قہر سے پناہ مانگتے ہوئے بیل ذبح کیا کرتے تھے اور ان کا گوشت غریبوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
مائی پھلین
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے رہائشی محقق عبدالقادر رند نے بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مائی پھلین بتاتی ہیں کہ ٹائٹینک جہاز کے حادثے کے وقت ان کی عمر کوئی 10 برس کے قریب تھی اور اس وقت ریڈیو اور اخبارات نے شہر جتنے بڑے جہاز کے ڈوبنے کی خبریں نشر کیں تھیں۔
مائی پھلین اسے قدرتی آفات سمجھتیں اور کہتیں کہ خوف اور توبہ استغفار کے لیے اس زمانے میں بیلوں کی خیرات کی جاتی تھی۔ مائی پھلین کے مطابق جب یہ جہاز ڈوبنے کی خبرسبی پہنچی تب ہفت ولی شوران میں کالے رنگ کے 2 بیل ذبح کرکے گوشت غریبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سبی میں ٹائٹینک سی جُڑی بیلوں کی اس خیرات کی چشم دید گواہ مائی پھلین تقریباً 107 سال کی طویل عمر پاکر 26 اگست 2020 کو انتقال کر گئی تھیں۔
ٹائٹن کا حادثہ
ٹائٹینک جہاز سے جڑی نحوست اب بھی اس کا پیچھا کر رہی ہے، اس کی تازی مثال ٹائٹن کا حادثہ ہے جس کے مسافر ٹائٹینک دیکھنے گئے اور خود ہمیشہ کے لیے لاپتا ہوگئے، لیکن اس حادثے پر بلوچستان سے کوئی خیرات کرنے والا سامنے نہیں آیا۔