اے سی کی مفت سروس

جمعہ 23 جون 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زندگی صرف ہنسی مذاق سے عبارت نہیں ، اس میں بعض اوقات رلا دینے والے واقعات بھی پیش آتے ہیں ، یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سا قصہ پسند کرتے ہیں۔ میرے دل کو دکھ درد سے خاص لگاؤ ہے اس لیے کائنات سے چن چن کر دردناک واقعات میرا رخ کرتے ہیں۔ یہ واقعات اگر بارش کے موسم میں پیش آئیں تو شاید میں گوارا بھی کر لوں لیکن گرمی کے موسم میں تو ان کی تکلیف گویا دوچند ہو جاتی ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ہم نے گھر میں اے سی لگانے پر اپنی ساری تحقیقی صلاحیتیں خرچ کر کے وہی اے سی لگوا لیا جو محلے میں سب نے بغیر تحقیق کے ہی لگوا رکھا تھا یعنی لوکل برینڈ کا بھروسہ مند اور اعتبار کے قابل۔ پاکستان کے معاشرے میں اعتبار ایک بہت بڑی سائنس ہے ، یہاں ڈاکو اور مجرم بھی قابل تعریف ٹھہرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں ، اعتبار کے قابل ہونا میرے نزدیک بھی سب سے بڑی خوبی ہے چناں چہ اےسی میں ہی سہی ، میں اس کو نظر انداز نہ کر سکی پچھلے سال نیا اے سی لگانے کے بعد ہم نے خوب اے سی چلایا، بجلی خرچ کی اور بہت سا بل دیا لیکن ظاہر ہے بھروسے کی کچھ قیمت تو ہوتی ہی ہے۔

اس سال کمپنی نے ہمیں ایس ایم ایس بھیجا کہ آپ کے لیے خاص آفر ہے، تین دن کے اندر اندر ہم سے اپنے اے سی کی مفت سروس کروائیں۔ چاہے پاکستان پر لوگ کتنی ہی تنقید کریں، چاہے میں ان کی کتنی ہی ہاں میں ہاں ملاؤں ، میرے دل کے ایک گوشےمیں وطن کی محبت کی چنگاری ضرور سلگتی رہتی ہے۔ہو سکتا ہے اس کا تعلق بچپن میں سنے گئے ملی نغموں اور قومی موضوعات پر رٹے رٹائے مضامین سے ہو، پھر تاریخ ِپاک میں لوگ تاریخ ِاسلام کی طرح مقدس، نیک اور نورانی ہیں تو کہیں نہ کہیں میرے اندر مذہب ، ملت ، قوم ، پنجاب اور پاک فوج کا تصور حجاز سے کم نہیں۔

سو اس پیغام کو میں نے بہت خاص جانا اور سوچا کہ بالآخر ہمارے لوگوں کو کسٹمر کئیر کا فلسفہ سمجھ میں آ ہی گیا، وہ جان ہی گئے کہ کاروبار صرف روپیہ کمانے کے لیے ہیں اس سے نیکی بھی کمائی جا سکتی ہے۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں اپنی زندگی میں سروسز فراہم کرنے والے لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے دوں، کئی بار جب کسی سویپر نے کوئی ناقابل بیان مسلہ حل کیا تو میرا دل چاہا اس کو نئے کپڑے دوں ، گرم پانی فراہم کروں اور کہوں کہ نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر دکھاو اور پھر اس کو مزے دار سا کھانا کھلاؤں۔ گھروں میں کام کرنے والی خاتون کے استقبال کے لیے پھول نچھاور کرنے کا دل کرتا ہے، ہر روز پرس میں جتنا بھی چینج یعنی سو ہزار کے نوٹ ہوں ، گنے بغیر اس کے حوالے کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ریفریجریٹر میں کھانے کا جو سامان ہو اپنے ہاتھ سے اس کو کھلانے کا جی چاہتا ہے، لیکن کوئی میرے اعتبار کی قدر نہ کرے تو میرا یہ دل سیاہ ہو جاتا ہے اور ظلم و تشدد کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے گو کہ میرا زور سوائے میرے شوہر کے کسی اور پر نہیں چلتا۔

خیر میں نے اے سی سروس کے لیے فراہم کردہ نمبر پر کال کی، خوش آواز لڑکی نے کچھ تفصیلات طے کیں اور میں ٹیم کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ انھوں نے اگلے دن بعد از دوپہر کا وقت مقرر کیا سو میں نے سوچا گھر کی اچھی صفائی کر لینی چاہیے تاکہ کمپنی کے نمائندے ہمارے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہو جائیں۔جو ایک بار خلوص ِنیت سے صفائی شروع کی تو شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی،حالاں کہ میں نے پچھلی بار عید پر بھی ایسی صفائی کی تھی اور بعدازاں آئندہ کے لیے توبہ کر لی تھی لیکن مومنین کبھی اچھے کام سے توبہ پر قائم نہیں رہ سکتے، سگھڑ خواتین و حضرات جانتے ہوں گے کہ تین چیزیں جو صاف ہوں تو ایک گندی چیز کو نظر انداز کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پھر دروان ِصفائی شادی کی تصاویر پر نظر پڑی تو گویا دکھ درد کا ایک اور باب کھل گیا، جذبات میں پہلے ہی ایک گھلاوٹ تھی، تصاویر میں شوہر کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا، ان کی ظالمانہ مسکراہٹ میری معصومیت پر کتنا گہرا طنز تھی، ہائے میں خوامخواہ کتنی خوش نظر آ رہی تھی، بےوقوفی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ دیر تک اپنے ماضی کو یاد کرتی رہی، روری رہی اور گھر مزید صاف کرنے کا دل ہی نہ رہا۔۔ اگلے دن صبح سویرے نئی لگن سے بقیہ کام نمٹائے، سوچا کمپنی کی ٹیم کے لیے چائے کے ساتھ پیش کرنے کا سامان منگوا لوں، پھر خیال آیا کہ شربت ٹھیک رہے گا۔ گھر میں لگے لیموں کے درخت کی طرف گئی، دس لیموں توڑنے میں ہاتھ اور بازو پر کئی گہری گہری خراشیں لگوا لیں، کوئی اور دن ہوتا تو اس واقعے پر بھی رو لیتی لیکن چار بجنے والے تھے۔

خیر ٹیم کی کال آ گئی کہ ہم نکل آئے ہیں ہمیں لوکیشن اور پتا بھیج دیں۔ ہم نے تفصیلی پتا مع لینڈمارک بھیجا اور ساتھ ہی گوگل میپ سے لوکیشن بھی شئیر کر دی۔ اب جناب وہ ٹیم ہے کہ بار بار راستہ پوچھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ پورا شہر چشم ِتصور میں دیکھ دیکھ کر راستہ بتا رہے ہیں، بارہا ٹیم نے ہمیں بتایا کہ شہر میں کتنی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن میری یادوں والا پرانا شہر کتنا پیارا ہوا کرتا تھا، باتوں باتوں میں دہی بھلے کی اچھی دکانوں پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ ٹیم نزدیک پہنچی تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو نیند سے جگا کر ذرا باہر تک بھیجا کہ بھروسہ مند کمپنی کے نیوی بلو اور گہرے سرخ رنگ کے یونیفارم میں ملبوس نیک دل نوجوانوں کو گھر لا سکے۔

خود گیٹ سے باہر کھڑے ہو راہ دیکھی گویا سینہء شمشیر سے باہر تھا دم شمشیر کا۔۔ ٹیم کا چاند نکل ہی آیا۔ اےسی والے کمرے کے لشکارے خود مجھے متاثر کر رہے تھے، پھر میں نے سوچا اےسی سروس سے کہیں گندگی یا کوئی کالک نہ پھیل جائے، اس لیے کوئی پرانی چادر فرش پر بچھا دی۔چند اوزار بھی میز پر رکھ دیے۔ ٹیم کو کمرے میں بٹھا کر شربت لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو کیا دیکھا کہ ان میں سے ایک لڑکا کھانے کی کرسی رکھ کر اس پر کھڑا ہے اور اے سی کے فلٹر نکال رہا ہے۔ میں شربت والی ٹرے تھامے دروازے میں ہی کھڑی ہو گئی۔ دوسرے لڑکے نے فلٹر لیے اور لان کی کھڑکی کھول کر اےسی فلٹر کو اپنے ایک برش سے کیاری میں صاف کر دیا۔ دوسرے نے جھٹ فلٹر لگائے اور مسکرا کر کام ہو جانے کی نوید سنا دی۔

مایوسی نے گویا میری جان ہی لے لی ، مجھے نہیں معلوم میں پھر ان سے کیسے پیش آئی، مجھے بس ان کی ناراض نظریں ہی یاد ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے ان کو شربت بھی نہ پیش کیا اور گالیاں دیتے ہوئے گیٹ تک لے گئی اور بددعاؤں کے سائے میں سڑک تک چھوڑا، میری حیرت نے ابھی تک بھروسہ مند کمپنی کو نہیں چھوڑا حتی کہ دل چاہنے لگا ہے یہ ملک ہی چھوڑ دوں جہاں سروس کے نام پر فلٹر کی صفائی ہوتی ہے۔ ویسے بھی آج کل ملک چھوڑنے کی باتوں کا رواج ہے، ہر شریف النفس یہی خیالات ظاہر کر کے اپنی شرافت کا ثبوت دیتا نظر آتا ہے، اب تو لوگ زیادہ ہی سنجیدہ ہیں ان کا خبریں سننے کا شوق بھی ہجرت کر گیا ہے۔ جنید جمشید مرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
چلو تو سہی
راستہ کوئی مل ہی جائے گا

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp