گزشتہ تین عشروں سے اسلام آباد میں مقیم فلسطینی نژاد خاتون بسمہ المشارقہ یوں تو ہمیشہ سے مشرق وسطی کے زبردست روایتی کھانے بناتی آئی ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے کچن سے وابستہ اس مہارت کو کاروباری خطوط پر استوار کرنے کا نہیں سوچا تھا۔
لیکن یہ خیال اسلام آباد میں مقیم بہت سے ان عرب نژاد لوگوں کو درپیش پاکستانی کھانوں کے تیز مصالحہ جات سے پیدا ہونیوالے چیلنج سے نہ صرف پیدا ہوا بلکہ انہیں ایک مصروف شیف میں بھی تبدیل کرگیا ہے۔
آج کل بسمہ المشارقہ کی مصروفیت کا عالم یہ ہے کہ انہیں روزانہ کئی آرڈر معذرت کے ساتھ رد کرنا پڑتے ہیں۔گھر سے ’کھانوں کا کاروبار‘ کا خیال کوئی بہت اچھوتا نہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو دارالحکومت اسلام آباد کی متنوع آبادی کے پس منظر میں یہ ایک منفرد کاروباری خیال ہے۔
یہاں موجود سفارتی کمیونٹی سمیت عام شہری آئے دن کچھ نیا اور منفرد کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ عرب دنیا سے اپنے تعلق کی بنیاد پر بیشتر شہری مختلف روایتی عربی کھانوں کے ذائقہ سے بھی آشنا ہیں۔
عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں بسمہ المشارقہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی کھانے بہت مزیدار ہیں لیکن وہ زیادہ مصالحوں کے استعمال کے باعث تیز ہوتے ہیں جب کہ عرب نسبتاً بہت ہی معتدل مرچ مصالحوں کے عادی ہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ میرے شوہر سے بیشتر عرب احباب فرمائش کرتے تھے کہ وہ ہمارے گھر کھانا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں کھانا کھا کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔‘
بسمہ المشارقہ کے ہاتھوں بنے مشرق وسطی روایتی پکوانوں سے لطف اندوز ہونے والے عرب اور پاکستانی مہمانوں نے اپنے مسلسل اصرار اور فرمائش سے بسمہ المشارقہ کو اپنے شوق کو کاروبار کا رنگ دینے پر مجبور کرہی دیا۔ ’یہ بڑی طمانیت کا باعث ہے کہ لوگ میرے بنائے ہوئے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ مجھے کھانا پکانا پسند ہے۔‘
بسمہ المشارقہ نے رواں برس کے آغاز پر اپنے اس شوق کو کاروبار کا رنگ دینا شروع کیا جس کی مانگ میں دیکھتے ہی دیکھتے اضافہ ہوتا گیا۔ ’میرے پکائے ہوئے کھانوں کی طلب توقعات سے بڑھ کر ہے۔ روزانہ کئی آرڈر ملتے ہیں اکثر منع بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر کھانے تیار کرنا اور وہ بھی کم وقت میں خاصا دشوار ہوجاتا ہے۔‘
بسمہ المشارقہ کے تیار کردہ مینو کے مقبول پکوانوں میں حمس، فلافل، لبنا، وارک اناب اور مقلوبہ شامل ہیں۔ وہ باقاعدگی سے ماہر غذائیت سے مشاورت کے ساتھ تمام پکوان زیتون اور ناریل کے تیل میں بناتی ہیں۔ ان کے نمک سے پاک پنیر بھی خاصے مقبول ہیں، جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے نہایت موزوں ہے۔
ان کھانوں میں سے ایک ڈش ’مقلوبہ‘ خاصی مقبول ہے، جسے گوشت، چاول اور بگھارے ہوئی سبزیوں کے ساتھ دیگچی میں پکا کر اسے سر پر رکھ کر الٹا جاتا ہے اور پھر اسی حالت میں ایک بڑی ڈش میں اس طرح خالی کیا جاتا ہے کہ حاصل ہونے والی شکل کو ’رائس کیک‘ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
بریانی سے مشابہ اس مقلوبہ کو اکثر عرب ممالک میں گھر کے تمام افراد کے ساتھ کھانے کے اہتمام میں اکثر ماؤں کی جانب سے بنایا جاتا ہے۔ یوں تو مقلوبہ کا لغوی معنی بھی’اوپری سطح نیچے‘ کے ہی ہیں تاہم بسمہ اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھتی ہیں۔ ’یہ دل سے بنایا جاتا ہے۔‘
اس کے وفادار صارفین میں اسلام آباد کی رہائشی عرب بلکہ تیزی سے پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ’پاکستانی عوام عرب کھانوں کی تعریف کرتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا دورہ کیا ہے۔ وہ ہمارے پکوان سے آشنائی کے باعث اکثر آرڈر دیتے ہیں۔‘
پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے والی بسمہ المشارقہ پر امید ہیں کہ ان کا بنائے کھانے زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو عرب ثقافت اور دسترخوان سے جوڑنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ ’مجھے امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے کھانوں کو پسند کریں گے اور میرے ملک کے بارے میں جانیں گے، خاص طور پر فلسطین کے بارے میں۔‘