بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امریکا آمد پر مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر پہنچنے پر بھی مودی کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا گیا۔ امریکی سکھ بھی بھارتی پنجاب میں مودی مظالم کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ بھارتی پنجاب میں مظالم پر سکھوں نے بھی نریندر مودی کے قیامتی ہوٹل کے باہر خالصتان کے پرچم لہرا دیے جب کہ نیویارک کی سڑکوں پر مودی کرائم منسٹر آف انڈیا کے ڈیجیٹل ٹرک بھی رواں دواں ہیں، ڈیجیٹل ٹرکوں پر اقلیتوں پر مودی سرکار کے مظالم سے امریکی عوام کو آگاہ کیا گیا ہے۔
سکھ فار جسٹس تنظیم کے تحت مظاہرین نے ہوٹل کے باہر دھرنا بھی دیا اور خالصتان کی آزادی کے واشگاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے مودی حکومت کے خلاف تحریر کیے گئے نعروں پر مشتمل بینرز ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے تھے جن میں بھارتی وزیراعظم کو ریاستی دہشت گردی کا چہرہ قرار دیتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی حکومت اقلیتوں پر بد ترین مظالم ڈھا رہی ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مودی کو شرمندگی کا سامنا
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے بھی بائیڈن سے مودی کے ساتھ اقلیتوں کی مخدوش صورتحال اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو بھارتی حکومت کی طرف سے منظم انداز میں اقلیت کش اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے۔ مودی سرکار امتیازانہ پالیسیوں اور قوانین کے ذریعے اقلیتوں کی مذہبی آزادی سَلب کر رہی ہے۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کے ترجمان ڈیوڈ کری نے کہا کہ حجاب بندی، مذہب تبدیل کرنے کی پابندی اور شہریت کے نئے قوانین جمہوری بھارت کو انتہا پسند ہندوستان بنانے کے اقدامات ہیں۔2020 سے اب تک امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی امریکا سے ہندوستان کو اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویشناک ملک کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔ 15 جون کو CJP نے امریکی حکومت سے بھارت میں بگڑتی صحافتی صورتحال پر مذمت کا مطالبہ کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر نے بھی صدر بائیڈن کو مودی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کا معاملہ اٹھانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ مارچ 2023 میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کو سنگین قرار دیا گیا تھا۔ گذشتہ برس مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر بھی 4 روز تک چھاپے مارے گئے تھے۔ 2020 میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شدید حکومتی دباؤ کے مدِ نظر بھارت میں کام بند کر دیا تھا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت 140 سے 161 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
نریندر مودی نے بھارت میں مذہبی امتیازی سلوک کی تردید کردی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی تردید کی کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک موجود ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران انسانی حقوق اور دیگر جمہوری اقدار پر تبادلہ خیال کیا۔ پریس کانفرنس میں یہ پوچھے جانے پر کہ وہ اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا قدم اٹھانے کو تیار ہیں، اس پر مودی نے کہا تھا کہ انہیں بہتر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین اور ہماری حکومت اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریت کام کر سکتی ہے۔ جب میں ذات پات، نسل، مذہب، جنس کی بات کرتا ہوں تو (میری حکومت میں) کسی بھی طرح کے امتیاز ی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹوں میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھارت میں مسلمانوں، ہندو دلتوں، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی فہرست بھی دی۔ انسانی حقوق کے حامیوں اور بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے درجنوں قانون سازوں نے ان پر زور دیا کہ وہ مودی کے سامنے اس مسئلے کو عوامی سطح پر اٹھائیں، جن کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2014 سے اقتدار میں ہے۔
بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے بلیک ہول بن چکا ہے
درجنوں مظاہرین وائٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہوئے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل کے ایڈوکیسی ڈائریکٹر اجیت ساہی نے کہا کہ یہ سب کے لیے واضح ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا مودی کا یہ بیان کہ ان کی حکومت کی طرف سے کوئی مذہبی امتیاز نہیں برتا جا رہا مکمل جھوٹ ہے۔ بھارتی اقلیتوں پر حملوں کی رپورٹس مرتب کرنے والے گروپ ہندوتوا واچ کے بانی راقب حمید نائیک کا کہنا تھا کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے بلیک ہول بن چکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی اہمیت اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی وجہ سے واشنگٹن کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں انسانی حقوق پر تنقید کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ امریکی کانگریس کی صرف 2 مسلم خواتین ارکان الہان عمر اور رشیدہ طلیب کے علاوہ چند دیگر ترقی پسند قانون سازوں جیسے نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے کانگریس سے مودی کے خطاب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بھارتی مخالفین اور اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی مذمت کی۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ مودی کی جارحانہ ہندو قوم پرستی نے ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے بہت کم جگہ چھوڑی ہے۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مخالفین، اقلیتوں اور صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ بھارت ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 140 ویں سے گر کر اس سال 161 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو اس کا سب سے کم مقام ہے، جبکہ مسلسل 5 برس سے بھارت عالمی سطح پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کی فہرست میں بھی سرفہرست ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 2019 کے شہریت قانون کو مسلم تارکین وطن کو باہر رکھنے کے لیے بنیادی طور پر امتیازی قرار دیا تھا۔ ناقدین نے تبدیلی مذہب مخالف قانون سازی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں عقیدے کی آزادی کے آئینی طور پر محفوظ حق اور 2019 میں مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی ملکیت والی املاک کو بھی مسمار کیا گیا ہے۔ اور جب کرناٹک میں بی جے پی برسراقتدار تھی تو سکول میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
مودی گو بیک، بھارتی وزیراعظم کے خلاف وائٹ ہاوس پر مظاہرہ
امریکن سکھ کمیونٹی، انڈین امریکن کونسل، ویٹرینز فار پیس، سکھ فار جسٹس اور دیگر تنظیموں کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے باہر مودی کے خلاف مظاہرہ کیا جس میں شدید نعرے بازی کی گئی۔ مظاہرین میں بڑی تعداد میں امریکا میں مقیم بھارتی نژاد سکھ، مسلمان اور کرسچن کمیونٹی شامل ہے۔ مظاہرین نے مودی گو بیک، انڈیا ان ڈینجر اور ہندوتوا کے خلاف بینرز اٹھا رکھے تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ گجرات کے قصائی کا امریکا کا سرکاری دورہ انسانی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے، مودی بھارت میں سکھوں کے قتل عام کا براہ راست زمہ دار ہے، منی پور میں ریاستی سرپرستی میں عیسائی اقلیت کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے، مظاہرین نے امریکا سے گجرات فسادات، ہندؤ انتہا پسندی اور صحافتی کریک ڈاؤن پر مودی سے جواب طلبی کا مطالبہ بھی کیا۔