ملک کے دیگر حصوں کی طرح اسلام آباد میں بھی ہیٹ ویو کا سلسلہ جاری ہے اور رواں ہفتے کے آغاز سے ہی گرمی کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس سے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں اور بیشتر کا تو یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اس نوعیت کی گرمی پہلے کبھی محسوس نہیں کی۔
موسم کی شدت سے بچاؤ کے لیے حکومتی سطح پر بھی ایڈوائزری جاری کی گئی ہے جب کہ ماہرین صحت بھی شہریوں کو خود کو گرمی سے بچانے کے لیے خاص احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث 22 جون کو وازرت صحت کی جانب سے ہیٹ ویو ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں گرمی سے بچاؤ کے لیے عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا گیا۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے، بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا جائے اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہننے جائیں۔
ایڈوائزری میں ہیٹ ویو کی علامات کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے باڈی ٹیمپریچر 10 سے 15 منٹ میں 106 فارن ہائیٹ تک پہنچ سکتا ہے، ہیٹ اسٹروک موت یا مستقل معزوری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بخار، سر درد، تیز بخار، جسم ٹھنڈا ہو جانا یہ تمام ہیٹ ویو کی علامات ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایتھلیٹس اور باہر کام کرنے والے افراد ہیٹ ویو کا شکا ہو سکتے ہیں۔
راولپنڈی ایم ایچ ہسپتال کے ریزیڈنٹ انٹرنل میڈیسن فزیشن ڈاکٹر احتشام نے گرمی کی لہر سے بچاؤ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں گرمی نے جو شدت اختیار کی ہے وہ شہریوں کے لیے کافی حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر احتشام کا کہنا تھا کہ اس طرح کی گرمی کی لہر میں سب سے زیادہ ضروری ہے کہ سادہ پانی پینے کی بجائے نمک ملا پانی پیا جائے کیوں کہ گرمی میں پسینہ آنے سے جسم میں سوڈیم کا لیول کم ہو جاتا ہے جس سے انسان کو فٹس یعنی جھٹکے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نمک یا او آر ایس ملا کر پانی پینے سے باڈی زیادہ ہائیڈریٹ رہتی ہے ورنہ بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے اور پانی کی اس کمی کی وجہ سے آپ کے گردے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افراد جو پہلے ہی شوگر یا دل کے عارضے میں مبتلا ہوں ان کے لیے خاص طور پر تمام ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر احتشام کا کہنا تھا کہ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پانی ایک بار میں ہی زیادہ پیا جائے۔ نمک حل کرنے کے بعد ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی پیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی ماہر ظل ہما نے گرمی کی شدت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں بہت شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں ملکی اور عالمی سطح پر غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں جن کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں بہت تیزی سے آ رہی ہیں۔
پاکستان کی بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملک میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی ضرویات پوری کرنے کے لیے جگہ جگہ انڈسٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اسی طرح درختوں کو کاٹ کر رہائش کے لیے سوسائیٹیاں بنائی جا رہی ہیں جو موسم کی شدت کا سبب بن رہی ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ملک میں پہلی مرتبہ شدید ہیٹ ویو سنہ 2015 میں کراچی میں آئی تھی۔ اور یہ سلسلہ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گیا ہے اورااس بار اسلام آباد بھی اس کی لپیٹ میں آچکا ہے جس کی وجہ وہی جنگلات کاٹ کر رہائشی علاقے بنانا ہے اس لیے وفاقی دارالحکومت کا موسم بھی غیر متوقع ہوتا جا رہا ہے۔
اگر کچھ ماہ پہلے کی بات کی جائے تو اسلام آباد میں یک دم سے درجہ حرارت گرا اور سردی کی ایک شدید لہر شہریوں نے دیکھی جو کہ بہت زیادہ غیر متوقع تھی جب کہ اس وقت اس کا امکان بھی نہیں تھا۔
ظل ہما نے مزید بتایا کہ عالمی سطح پر کلائیمیٹ کے حوالے سے ہر سال سیمینار اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے مگر اس پر عملی اقدامات اس طرح نہیں کیے جا رہے جو بہت ہہی خطرناک بات ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاملات ایسے ہی رہے تو شاید یہ سیارہ رہنے کے قابل بھی نہ رہے۔