پاکستان نے امریکا اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کے خصوصی حوالے پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے یک طرفہ، سفارتی اصولوں کے منافی اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے دوران امریکا اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان 22 جون 2023 کو جاری کردہ ‘امریکہ اور ہندوستان کے مشترکہ اعلامیے’ میں پاکستان کے خصوصی حوالے کو غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دو ممالک کے باہمی تعلقات کے بارے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں پاکستان کو خصوصی طور پر شامل کیا جانا سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔ ہم حیران ہیں کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی تعاون کیا اور اس کے باوجود امریکا نے بھارت کے ساتھ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کو شامل کیا جو یقینی طور پر قابل افسوس ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔ پاکستان کے عوام ہی اس جنگ کے اصل ہیرو ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عالمی برادری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار بار تسلیم کیا ہے۔ پاکستان نے بار بار یہی کہا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت کو مشترکہ تعاون پر مبنی اقدامات کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔
ترجمان نے بیان میں کہا کہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں جو دعوئے کیے ہیں وہ کس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی عزم کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ تعاون پر مبنی جذبہ ہی دہشت گردی کی لعنت کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو جغرافیائی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا: ترجمان
پاکستان دیکھ رہا ہے کہ امریکا اور بھارت نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں ’ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو کیسے جغرافیائی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا،
بیان میں کہا گیا کہ بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کو چھپانے کے لیے عادتاً دہشت گردی کا نام استعمال کرتا ہے تاکہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر پر اپنے جابرانہ قبضے، کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، اپنے وحشیانہ جبر اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے دُنیا کی توجہ ہٹا سکے۔ پاکستان اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قربانیوں کے بارے میں اس طرح کے الزامات لگانا بالکل غلط ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ اعلامیے میں امریکا خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی اصل وجوہات کو حل کرنے اور ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضے، یہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا نوٹس لینے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا کا یہ طرز عمل بین الاقوامی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکا کی طرف سے بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی فراہمی پر بھی گہری تشویش ہے۔ ایسے اقدامات خطے میں فوجی عدم توازن کو بگاڑ رہے ہیں اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے اقدامات جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے مقصد کے حصول میں کسی بھی صورت مددگار ثابت نہیں ہو سکتے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے مسائل کے بارے میں ایک جامع اور معروضی نقطہ نظر اختیار کریں اور یک طرفہ مؤقف اختیار کرنے سے گریز کرے۔