سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن اور وزیراعظم مودی کی ملاقات کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے پر ہر پاکستانی کو دکھ ہوا ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی ہر پاکستانی امریکا بھارت مشترکہ اعلامیہ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ ’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں (امریکا) نے بڑی سیاسی مصلحت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانی شہریوں اور فوج کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہر ذی شعور پاکستانی کو وہ بیان پڑھ کر تکلیف ہوئی ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کے مطابق صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی کے درمیان ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی ذکر ہی نہیں۔’افسوس کی بات ہے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں سے ناروا سلوک کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکا میں بہت سے کانگریس ارکان سمیت دیگر ادارے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف آواز بلند کررہے ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت پاکستان میں میڈیا کا ایک بڑا طبقہ نجانے کیوں خاموش ہے۔
اس سے قبل دہشت گردی کے دو مقدمات میں نامزد وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی اپنے وکیل علی بخاری کے ہمراہ جوڈیشل کمپلیکس میں واقع انسداد دہشت گردی کی عدالت پیش ہوئے، جہاں ان کی درخواست ضمانت پر کارروائی کے بغیر 10 جولائی تک توسیع کردی گئی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس کے تبادلے کے بعد نئے فاضل جج کے چارج نہ لینے پر عدالت نے شاہ محمود قریشی کی عبوری ضمانت میں مزید دو ہفتے کی توسیع دیدی ہے۔
اسلام آباد کے کھنہ پولیس اسٹیشن میں درج مقدمہ میں شاہ محمود قریشی کی ایماء پر دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے دہشت گردی کے اس مقدمہ میں عبوری ضمانت کرا رکھی تھی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ ہنگامہ آرائی کے وقت نہ اسلام آباد میں موجود تھے اور نہ ہی ملوث۔ ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ ایما کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور جس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔