جی ! ہو یہ رہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں محاورة نہیں بلکہ حقیقت میں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت نے شور مچایا تھا کہ روس سے تیل بھرا جہاز آئے گا تو پھر پاکستانی صارفین، تیل نہ صرف گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں آرزاں نرخ پر ڈالیں گے بلکہ ایسا تاثر دے رہے تھے کہ اگر پانی میسر نہ ہو تو اس سے وضو بھی کر سکیں گے۔ لیکن اللہ بھلا کرے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہ انھوں نے شریف خاندان اور ان کے جملہ ترجمانوں کی اس خواہش پر بے دردی سے پانی پھیر دیا۔
شریف، زرداری اور مولانا خاندان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اعلان عام کیا تھا کہ اب ملک میں اندھرے ختم ہونگے۔ چولھے بھی جلیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اقتدار میں آنے کے بعد تینوں اتحادی خاندانوں نے اپنے بچوں کو منافع بخش نوکریوں پر لگا دیا۔ کسی کے گھر میں روشنی ہو یا نہ ہو ان تینوں خاندانوں کے چشم و چراغوں کے محلات دن رات روشن رہتے ہیں۔ یہ مزے الگ سے کہ ان کو یہ تمام روشنیاں مفت میں مل رہی ہیں۔
عام آدمی خون جلانے کے لئے بھی تیار ہے لیکن بجلی ہے کہ روشنی دینے کو تیار نہیں۔ ملک کی عوام کے چولھوں کا تو نہیں معلوم لیکن یہ حقیقت ہے کہ جن محلات میں ان تینوں خاندانوں کا بسیرا ہے وہاں گیس سے چولھے جل رہے ہیں ۔ عام آدمی کے گھر میں اگر چولھا جل بھی رہا ہے تو جب بھی یہ جلانا شروع کردیتا ہے تو ان کا خون بھی جل رہا ہوتا ہے، اس لئے کہ قیمتیں اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ خون جلے بغیر چولھے کا جلانا ناممکن ہو گیا ہے۔
شریف خاندان، زرداری خاندان اینڈ کمپنی اور مولانا خاندان اینڈ ڈونرز تو خوش ہے کہ ان کو صبح کا ناشتہ اور دو وقت کی روٹی پیٹ کربھر نہیں بلکہ بھرنے کے بعد چھوڑ کر مل رہی ہے ۔ وہ بھی مفت میں ۔ اس کے برعکس عام آدمی نے کھانا کم کردیاہے ۔ مشکل سے بچوں کا پیٹ بھر رہے ہیں اگر خود پیٹ بھر کر کھا لیا تو پھر بچے بھوکے رہیں گے۔ ہاں ! ان تینوں خاندانوں کے تمام افراد کو پھل بکثرت میسر ہے۔ بالکل اس محاورے کے مصداق کہ مال مفت اور دل بے رحم۔ لیکن یہ عیاشی عوام کی پہنچ سے دور ہے۔
بلا یہ کیا بات ہوئی کہ پھل شریف خاندان کے شریف زادے اور زادیاں بھی کھائیں اور عام آدمی کے بچے بھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پھل زرداری خاندان اینڈ کمپنی کے اولادوں کو بھی ملے اور غریب کے بچے بھی لطف اندوز ہو۔ مولانا خاندان کے چشم و چراغوں کو بھی پھل ملے اور عام مولانا کے بچے بھی پھل کھائیں ۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر حکمرانی کا کیا مزہ؟یہ تو ہورہا ہے اس ملک کے عام فرد کے ساتھ اور ان کو اس کی کوئی پروا ہی نہیں۔
لیکن چل کیا رہا ہے؟آصف علی زرداری ملک کے اندر اور باہر مقتدر طبقوں سے اپنے لاڈلے کے لئے وزارت عظمیٰ مانگ رہے ہیں ۔ اس منصب کے حصول کے لئے زرداری خاندان اینڈ کمپنی کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس قربانی کو صرف یہ ملک اور قوم ہی بھگتے گی۔
شریف خاندان اندرونی خانہ نکے کے آبا کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیساں بنا رہے ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ میاں نواز شریف کو آنے دو ۔ قیمت جو بھی ہوگی ہم ادا کرنے کے لئے تیار ہیں، اس لئے کہ ادائیگی تو ہم نے نہیں بلکہ اس ملک اور قوم نے کرنی ہے۔
مولانا خاندان اینڈ ڈونرز بھی سب کا ساتھ بنا کر رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ان کا ایک ہی فارمولا ہے کہ نہ چھیڑ ملنگا نوں ۔ بس دس پندرہ سیٹیں چاہئے۔ حکومت آپ جس بھی خاندان کے حوالے کریں گے، ہمارا خاندان اسی کے ساتھ الحاق کے لئے تیار ہے۔ ہمیں کسی کے ساتھ بھی دسترخواں شیئر کرنے میں کوئی تکلیف نہیں۔
گجرات کے بڑے چوہدری کے پاوٓں اگرچہ قبر میں ہیں لیکن وہ بھی اس مہنگائی کے دور میں اپنے اہل و اعیال کے لئے پریشان ہے۔ وہ اب بھی سب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مٹی پائو۔ معاملہ صرف روٹی شوٹی کا ہے۔ بس سب مل کر روٹی شوٹی کھاوٓ۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اگرچہ اس سارے کھیل سے باہر ہیں لیکن وہ بھی محکمہ زراعت سے بات چیت کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کی صرف ایک ہی التجا ہے کہ مجھے دوبارہ وزیراعظم بناوٓ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ پورا ملک تمھارے حوالے ہوگا۔ چاہئے فصلیں اگاوٓ، باغات لگاوٓ یا رہائشی منصوبے۔ یہ بھی آپ ہی کی مرضی ہوگی کہ خریدو، مفت میں لویا قبضہ کرو۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ بس مجھے وزیراعظم بناوٓ۔
جی ہاں !یہ سب ہورہا اور یہی سب کچھ چل رہا ہے۔ لیکن اس سب کچھ میں قربانی کا بکرا ملک اور قوم ہی ہے، لیکن قوم ایسا بھنگ پی کر سورہی ہے کہ جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ جب صورت حال یہ ہو تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہی اپنا فضل کریں ہماری طرف سے تو نا ہی سمجھو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔