بلوچ کالعدم تنظیموں میں خواتین خودکش بمباروں کے رجحان میں اضافہ کیوں؟

پیر 26 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

24 جون ہفتے کی دوپہر شمالی بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں خاتون خودکش بمبار نے سیکیورٹی کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی ہوئے۔

خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے قبول کی۔ اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ خاتون خود کش بمبار سمعیہ قلندارانی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے تھا۔ وہ گزشتہ 7 سال سے ’بی ایل اے‘ سے منسلک تھیں جبکہ گزشتہ 5 برس سے سمعیہ تنظیم کا سوشل میڈیا ونگ چلاتی تھیں۔

پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا ہے کہ سمعیہ بلوچ کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا تاہم 2011 میں سمعیہ کے متعدد اہل خانہ کو جبری طور پرلاپتہ کیا گیا جس کی وجہ سے انہوں نے ’بی ایل اے‘ میں شمولیت اختیار کی۔

بی ایل اے کی جانب سے یہ پہلا خود کش حملہ نہیں جس میں خاتون خود کش بمبار کو استعمال کیا گیا ہو۔ گزشتہ برس 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں چینی باشندوں پر حملے میں بھی شاری بلوچ نامی خود کش بمبار کو استعمال کیا گیا تھا۔ شاری بلوچ کا تعلق بھی سمعیہ کی طرح ایک پڑھے لکھے گھرانے سے بتایا گیا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بلوچ کالعدم تنظیموں میں خاتون فدائیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے وی نیوز نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

بلوچستان کا مسئلہ سیاسی، مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے: نصراللہ بلوچ

نصراللہ بلوچ کہتے ہیں کہ بطور انسانی حقوق کا علمبردار میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے جسے مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 74 سالوں سے اداروں کی جانب سے معاملے کو سیکیورٹی کا مسئلہ بنا کر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ریاست کے اس رویے کی وجہ سے بلوچوں میں مایوسی نے جنم لیا۔

نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبے میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع موجود نہیں۔ بلوچستان کی سمندری حدود پر بھی غیر ملکی قابض ہیں۔ سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کا پہاڑوں سے ملنا اور جبری گمشدگیوں سے بلوچوں کا ریاستی اداروں سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برس سے بلوچ اپنے حق کے لیے کبھی پر امن احتجاج کرتے ہیں۔ کھبی اراکین اسمبلی کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کبھی عدلیہ سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسے میں اداروں کی سرد مہری خواتین اور نوجوانوں کو بغاوت پر اکساتی ہے۔

نصر اللہ بلوچ نے مزید کہا کہ حکومت وقت کو اس معاملے کو سنجیدہ بنیادوں پر حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں مایوسی کی فضا کو کم کیا جاسکے۔

خاتون خود کش بمبار کے حملے نے قبائلی روایات پر کئی سوالات کو جنم دیا: وزیر داخلہ بلوچستان

دوسری جانب تربت میں خاتون خودکش بمبار کے حملے سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ اس واقعے نے بلوچستان کی قبائلی روایات پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہم اپنی خواتین کے سماجی استحصال سے متعلق ہر فورم پر آواز اٹھاتے ہیں۔ اپنی ماؤں اور بہنوں کے قانونی اور آئینی حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں لیکن تربت کے المناک واقعے کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کاروں نے خواتین کی عظمت کو پامال کیا ہے اور بلوچی روایات کی عزت و وقار کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ جب ہم خودکش حملہ آوروں کو گرفتار کرتے ہیں تو روایتی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اب روایات کا یہ حال ہے کہ خودکشی کرنے والی خاتون کے جسم کے اعضا سڑکوں پر بکھرے ہوتے ہی۔ اس وقت ہماری روایات اور ثقافت کہاں ہوتی ہیں۔

چند ماہ قبل وی نیوز کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کوئٹہ سے مبینہ خودکش بمبار مائل بلوچ کی گرفتاری سے متعلق کہا تھا کہ صوبائی حکومت پر دو طرفہ پریشر ہوتا ہے جب خودکش حملہ ہو جاتا ہے تو لوگ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں لیکن جب کسی خاتون خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا جاتا ہے تو مختلف تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ایسے میں صوبائی حکومت وہ اقدام اٹھاتی ہے جو عوام کے مفاد میں ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp