بھارتی وزیر خزانہ نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر سابق امریکی صدر باراک اوباما کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانا چاہتا ہے لیکن امریکا کے اندر سے اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی کیبل نیوز نیٹ ورک( سی این این) کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ امریکی صدر جوئی بائیڈن کو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے ساتھ ملاقات میں ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بات چیت کرنی چاہیے۔
باراک اوباما نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر بھارت نے اپنے ملک کے اندر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا اور یہ معاملہ یونہی برقرار رہا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت کسی وقت بھی ٹوٹنا ( دو لخت ) شروع ہو جائے گا۔
اس تبصرے پر بھارت کی وزیر خزانہ نے سابق امریکی صدر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر ’منافقت‘ کا الزام لگایا ہے ۔
#WATCH | FM Nirmala Sitharaman says, "…It was surprising that when PM was visiting the US, a former US President (Barack Obama) was making a statement on Indian Muslims…I am speaking with caution, we want a good friendship with the US. But comments come from there on India's… pic.twitter.com/6uyC3cikBi
— ANI (@ANI) June 25, 2023
بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ باراک اوباما نے ایک ایسے وقت بھارت کے خلاف تبصرے کیے جب وزیر اعظم مودی امریکا کا دورہ کر رہے تھے جس کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا تھا۔
نرملا سیتا رمن کہتی ہیں، ’یہ حیران کن بات ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکا کے دوران ایک سابق امریکی صدر (باراک اوباما) بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں بیان دے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں بڑی احتیاط سے کہہ رہی ہوں، ہم ان کے ساتھ (امریکا) اچھی دوستی چاہتے ہیں، لیکن وہاں سے بھارت کی مذہبی رواداری پر تبصرے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سابق امریکی صدر (اوباما) کے دور حکومت میں تو 6 مسلم اکثریتی ممالک پر بمباری کی گئی ان ممالک پر 26000 سے زیادہ بم گرائے گئے۔
انہوں نے اپنے دور صدارت میں تو شام سے لے کر یمن تک مسلم اکثریتی ممالک پر بمباری کی۔’ ’ایسے لوگوں کے الزامات کو کوئی کیوں کر سنے گا؟‘
وزیر خزانہ کی اس پریس کانفرنس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر ایک بھارتی صارف روحان بہارگاوا نے لکھا کہ یہ پہلا موقع ہے جب امریکی میڈیا اور سابق صدر باراک اوباما نے بھارت میں مسلم اقلیتی مسئلے کو کھلے عام اٹھایا ہے ۔
This will be the first time the Indian muslims minority issue was raised so openly by the media in the USA and the former president Barack obama.
But i am sure the BJP will continue its polarisation with the help of godi media and the IT cell because staying in power is the…
— Rohan Bhargava (@Rohan_Bhargava_) June 23, 2023
لیکن مجھے یقین ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی)’گوڈی‘ میڈیا اور ’آئی ٹی‘ سیل کی مدد سے اپنی پولرائزیشن سوچ جاری رکھے گی کیوں کہ اقتدار میں رہنا اس کی اولین ترجیح ہے۔
صارف نے مزید لکھا کہ اگر انہوں(بی جے پی) نے ان 9 سالوں میں اچھے ترقیاتی کام کیے ہوتے تو انہیں ووٹ لینے کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتی ہے۔
ادھر امریکی صدر جوئی بائیڈن نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران انسانی حقوق اور دیگر جمہوری اقدار پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک اور بھارتی صارف نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کے انٹرویو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اوباما کا بائیڈن اور مودی کے لیے یہ اہم مشورہ سنیں: ‘بائیڈن کو یہ مسئلہ مودی کے ساتھ اٹھانا چاہیے تھا کہ: بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔‘