بھارتی حکمران سابق امریکی صدر اوباما پر سیخ پا کیوں؟

پیر 26 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارتی وزیر خزانہ نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر سابق امریکی صدر باراک اوباما کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانا چاہتا ہے لیکن امریکا کے اندر سے اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی کیبل نیوز نیٹ ورک( سی این این) کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ امریکی صدر جوئی بائیڈن کو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے ساتھ ملاقات میں ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بات چیت کرنی چاہیے۔

باراک اوباما نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر بھارت نے اپنے ملک کے اندر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا اور یہ معاملہ یونہی برقرار رہا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت کسی وقت بھی ٹوٹنا ( دو لخت ) شروع ہو جائے گا۔

اس تبصرے پر بھارت کی وزیر خزانہ نے سابق امریکی صدر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر ’منافقت‘ کا الزام لگایا ہے ۔

بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ باراک اوباما نے ایک ایسے وقت بھارت کے خلاف تبصرے کیے جب وزیر اعظم مودی امریکا کا دورہ کر رہے تھے جس کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا تھا۔

نرملا سیتا رمن کہتی ہیں، ’یہ حیران کن بات ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکا کے دوران ایک سابق امریکی صدر (باراک اوباما) بھارتی مسلمانوں کی حمایت میں بیان دے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں بڑی احتیاط سے کہہ رہی ہوں، ہم ان کے ساتھ (امریکا) اچھی دوستی چاہتے ہیں،  لیکن وہاں سے بھارت کی مذہبی رواداری پر تبصرے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان سابق امریکی صدر (اوباما) کے دور حکومت میں تو 6 مسلم اکثریتی ممالک پر بمباری کی گئی ان ممالک پر 26000 سے زیادہ بم گرائے گئے۔

انہوں نے اپنے دور صدارت میں تو شام سے لے کر یمن تک مسلم اکثریتی ممالک پر بمباری کی۔’ ’ایسے لوگوں کے الزامات کو کوئی کیوں کر سنے گا؟‘

وزیر خزانہ کی اس پریس کانفرنس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر ایک بھارتی صارف روحان بہارگاوا  نے لکھا کہ یہ پہلا موقع ہے جب امریکی میڈیا اور سابق صدر باراک اوباما نے بھارت میں مسلم اقلیتی مسئلے کو کھلے عام اٹھایا ہے ۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی)’گوڈی‘ میڈیا اور ’آئی ٹی‘ سیل کی مدد سے اپنی پولرائزیشن سوچ جاری رکھے گی کیوں کہ اقتدار میں رہنا اس کی اولین ترجیح ہے۔

صارف نے مزید لکھا کہ اگر انہوں(بی جے پی) نے ان 9 سالوں میں اچھے ترقیاتی کام کیے ہوتے تو انہیں ووٹ لینے کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔

واضح رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ  بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتی ہے۔

ادھر امریکی صدر جوئی بائیڈن نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران انسانی حقوق اور دیگر جمہوری اقدار پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک اور بھارتی صارف نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کے انٹرویو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اوباما کا بائیڈن اور مودی کے لیے یہ اہم مشورہ سنیں: ‘بائیڈن کو یہ مسئلہ مودی کے ساتھ اٹھانا چاہیے تھا کہ: بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp