سپریم کورٹ آف پاکستان میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر پیر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا ہے۔
تحریری حکمانے کے ساتھ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔
تحریری حکمانے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض کیا گیا کہ وہ سابق جج جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتے دار ہیں۔
مزید پڑھیں
حکمانے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض کی بنیاد پر بینچ سے علیحدگی اختیار کی جس کے بعد باقی ججز پر مشتمل 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
اس کے علاوہ منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ اعتراض کی صورت میں جج کے ساتھ ادارے کی ساکھ کا معاملہ ہوتا ہے۔ انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ ظاہری، حقیقی اور غیرجانبدارنہ انصاف عوامی اعتماد اور قانونی کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔ غیرجانبداری سے شفاف ٹرائل سے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا برقرار رہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے۔ عدالتی نظام میں حقیقی غیرجانبداری جمہوری روایایت کی حفاظت ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج نے نوٹ میں لکھا ہے کہ عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبداری شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو خود ہی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق عام شہری کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں۔ جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جائے تو اسی کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھے یا علیحدہ ہو جائے۔
انہوں نے لکھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتے دار ہیں۔ وفاقی حکومت کے اعتراضات کے باعث خود کو بینچ سے علیحدہ کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل نے کہا میں بینچ میں نہ بیٹھوں۔ انصاف نا صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ پہلے ہی روز سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ رہ گیا تھا۔ اب جسٹس منصور علی شاہ کے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بینچ رہ گیا ہے جو سماعت کو آگے بڑھائے گا۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ امید کرتا ہوں اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام گرفتار افراد کی مکمل تفصیلات عدالت کو فراہم کی جائیں، تمام 102 زیر حراست افراد کو اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی، زیر حراست افراد کے کھانے کی بھی شکایت آئی ہے، تمام زیر حراست افراد کو ریڈنگ میٹیریل بھی فراہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجا کی فوری حکم امتناعی کی استدعا مسترد کردی، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کو تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ملٹری کے زیر حراست 102 ملزمان کی تفصیلات بھی طلب کردیں۔