سپریم کورٹ: 23 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری، جسٹس یحیٰی کا اختلافی نوٹ شامل

منگل 27 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف 23 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ ججز کے درمیان بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات سنجیدہ نوعیت اختیار کر گئے موجودہ صورت حال کے پیش نظر سویلینز کے فوجی ٹرائل کے خلاف مقدمے کے فیصلے کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔

آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے لے کر سپریم کورٹ میں سماعت کرنے والے بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات سنجیدہ نوعیت اختیار کر گئے ہیں۔ پہلے یہ اعتراضات درخواست گزاروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے لیکن اب سپریم کورٹ کے ججز بھی بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے معترض ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے بینچوں کی قانونی حیثیت پر اعتراضات کے بعد جسٹس منصور علی شاہ اور اب جسٹس یحییٰ آفریدی نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

گو کہ مؤخر الذکر دونوں جج صاحبان نے بینچ کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھایا لیکن معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

اس تناظر میں مذکورہ مقدمے کے فیصلہ کن ہونے کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور  جسٹس سردار طارق مسعود کے برعکس خود کو بینچ سے الگ تو نہیں کیا لیکن 23 جون کی سماعت کے حوالے سے اپنا تحریری نوٹ جاری کرتے ہوئے اس معاملے میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

اپنے تحریری نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں جسٹس قاضی فائزعیسی کے اعتراضات سے متفق نہیں ہوں اور سپریم کورٹ کارروائی کی قانونی حیثیت پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے اٹھائے گئے اعتراضات سے ہٹ کر سیاسی گرما گرمی کے اس معاملے میں، عدالت میں ہم آہنگی اور توازن کے لیے فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہیے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ فل کورٹ کے بغیر دیے گئے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں ہو گی، جسٹس آفریدی نے مزید لکھا ہے کہ نظام انصاف کا تعلق عوامی اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک ایسے وقت میں جب انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے سپریم کورٹ بینچ کے بارے میں سیاسی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔

جسٹس آفریدی نے دیگر تین ججوں کے اعتراضات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ زیادہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ بینچ کے اراکین نے تحریری اعتراض کیے ہیں، انہوں نے مزید لکھا ہے کہ موجودہ بینچ کی تشکیل پر اٹھنے والے اعتراضات پر چیف جسٹس کو توجہ دینے کو ضرورت ہے کیونکہ یہ عوامی اعتماد کا معاملہ ہے۔

انہوں نے لکھا کہ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے شروع ہونے والے معاملے پر بینچوں کی تشکیل پر مسلسل اعتراضات ہو رہے ہیں، کئی مقدمات میں خاص طور پر سیاسی نتائج کے حامل مقدمات میں سپریم کورٹ سے کئی بار فل کورٹ بنانے کی درخواست کی گئی اور کئی بینچوں جیسا کہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستیں سننے والے بینچ میں موجود ججوں پر اعتراضات اٹھائے گئے لیکن ان اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp