پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان دبئی میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے دونوں پارٹیوں کے دیگر رہنما تو بظاہر لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد نگراں وزیراعظم اور عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق معاملات طے کرنا ہے۔
’ملاقاتوں سے قبل پارٹی رہنماؤں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں کا میڈیا کے ذریعے پتا چلا اور اس حوالے سے پارٹی رہنماؤں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
ملاقاتوں میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق سوال پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کرنے کے حوالے سے بھی انہوں نے میڈیا پر ہی سنا ہے۔
کیا پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں شامل ہونے جا رہی ہے؟
وی نیوز نے قمر زمان کائرہ سے استفسار کیا کہ کیا دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں شمولیت اختیار کرنے والی ہے جس پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے تاہم ہماری ن لیگ کے ساتھ اتحادی حکومت ہے، دبئی میں ہونے والی ملاقات ایک پارٹی کے ساتھ ہوئی ہے نہ کہ پی ڈی ایم کے ساتھ تاہم پیپلز پارٹی نے تا حال اس اتحاد میں شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے‘۔
چیئرمین نادرا اور پی سی بی کے نام پر اتفاق
کچھ روز قبل سیاسی حلقوں میں چیئرمین نادرا اور کرکٹ بورڈ کے سربراہان کے چناؤ پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اختلاف رائے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ اس بارے میں جب قمر زمان کائرہ سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر دونوں پارٹیوں میں اگر کوئی تنازعہ تھا بھی تو اب وہ حل ہو چکا ہے کیوں کہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی ہو گئی ہے جب کہ ذکاء اشرف کا انتخاب بھی جلد ہو جائے گا‘۔
دبئی ملاقاتوں میں نگراں وزیراعظم کے نام کا فیصلہ
دبئی میں نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پر اب بھی مشاورت جاری ہے اور اس عہدے پر مشاورت ظاہر ہے دونوں پارٹپیاں مل کر کریں گی اور اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ’میرے ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری نے نگراں وزیراعظم کے لیے لاہور کے ایک صنعت کار کا نام تجویز کیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک چیئرمین نادرا کی تعیناتی کا معاملہ ہے تو اس میں وزارت داخلہ کا بنیادی کردار ہوگا اور چوں کہ کھیلوں کی وزارت پیپلز پارٹی کے پاس ہے تو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا فیصلہ وہی کرے گی اور نجم سیٹھی اب پی سی بی چئیر مین کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں تو اب وہ عہدہ ذکاء اشرف ہی سنھبالیں گے۔
کیا اتحادی پارٹیاں نسبتاً طویل دورانیے کی نگراں حکومت چاہتی ہیں؟
عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ویٹرن صحافی مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ اسمبلیاں اگست میں تحلیل ہو جائیں گی اگر ایک دن پہلے حکومت خود اسمبلیاں تحلیل کرے گی تو انہیں انتخابات کے لیے 90 روز کا وقت مل جائے گا ورنہ 60 دن کے بعد انتخابات ہوں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت یہی چاہے گی کہ نگراں حکومت کو جتنا ہو سکے اتنا مختصر وقت دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف سے بھی رابطے بحال ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو اس صورتحال میں اتحادی پارٹیاں انتخابات کا جلد انعقاد چاہیں گی۔
12 اگست کو اسمبلیاں تحلیل ہوں گی؟
ویٹرن صحافی و تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ابھی فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ نگراں وزیراعظم کون ہوگا جب کہ عام انتخابات کی بات کی جائے تو اسمبلیاں 12 اگست تک تحلیل ہو جائیں گی اور اسی کے مطابق ہی الیکشن ہوں گے۔
امتیازعالم کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اسمبلیاں خود تحلیل کرتی ہے تو اسے 90 دن کی مہلت مل جائے گی تاہم اس طرح اس صورت میں انتخابات ملتوی بھی ہو سکتے ہیں اگر نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں نہیں کی جاتیں۔