قربانی سے عبارت تہوار بقرعید کے آنے پر یاد آیا کہ پاکستان بنانے میں بانیوں اور قربانیوں نے اہم ترین کردار ادا کیا، بانی تو اللہ کو پیارے ہوگئے قربانیاں جاری ہیں۔ یہاں دنیا کی غیرمسلم اقوام کی آگاہی کے لیے بتانا ضروری ہے کہ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بقرعید پر گائے، بکرے، بھیڑ اور اونٹ ہی قربان کیے جاتے ہیں، عوام کو ہمارے ہاں لاکھ جانور سمجھا جائے لیکن اسلامی تعلیمات کی رو سے انسان کا ذبیحہ جائز نہیں، چناں چہ ’مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا‘۔
واضح رہے یہاں اس عام مسلم کا ذکرِخیر نہیں جو نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر اپنے اپنے حکم رانوں کے لیے ’مُرغ مُسَلم‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور جس کے لیے علامہ اقبال نے خواہش ظاہر کی تھی،’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘۔
ہم بات پاکستان کی اس مسلم اشرافیہ کی کر رہے ہیں جو حرم کی پاسبانی کے لیے اس پرچم کے سائے تلے ایک ہے۔ وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہمارے ہاں ’عوام قربانی دیں‘ کے تواتر سے ہونے والے سرکاری اعلانات کے باعث ہمیں اندیشہ تھا کہ دیگر ممالک کے غیر مسلم تو غیر مسلم مسلمان بھی ہمارے بارے اس غلط فہمی میں نہ مبتلا ہوگئے ہوں کہ ہمارے حکم راں انسانوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ چوں کہ ’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘ اس لیے تیکنیکی طور پر عوام سے لی جانے والی قربانی باقاعدہ ذبیحہ قرار نہیں پاتی۔
یہ تو خیر ممکنہ غلط فہمی کا ذکر تھا لیکن ہمارے ہم وطن واقعتاً جس غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہ ہے کہ قربانی کے جانور تہبند بندھا، بنیان چڑھا اور سُرما لگا روایتی قصائی ہی ذبح کر سکتا ہے، سو بقر عید کے ایام میں قصاب کی طلب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لگتا ہے ہر شخص بہ زبان حال کہہ رہا ہو،’اک قصائی‘ کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے، یوں اپنی طلب سے مجبور ہر کور قصائی کے ہر مطالبے کے آگے سر جھکا دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ سوٹ بوٹ میں ملبوس بعض افراد یہ فریضہ کہیں بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں، جن میں ایک نام ہے محترم اسحٰق ڈار کا۔
ہماری مانیں تو اس بار ڈار صاحب کو موقع دیں، خوش قسمتی سے ان دنوں وہ ملک میں ہیں، آئندہ بقرعید کا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم صاحب کے بہ قول اسحٰق ڈار کی ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں، اس سے پہلے کہ ان کی ٹانگیں کھینچ لی جائیں، انہیں جانور کی ٹانگیں کھینچ کر گرانے کے لیے ’بُک‘ کرلیں۔
جہاں تک اس معاملے میں ڈار صاحب کی فنی مہارت کا تعلق ہے تو میاں نواز شریف سے ان کے تعلق کی طرح اس تعلق سے بھی سب واقف ہیں۔ خدارا ہماری بات کا کوئی اُلٹا سیدھا مطلب نہ لیں، مزاج ’قصائیانہ‘ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قصائیوں کا سمدھیانہ بھی ہو، سمجھانا بس یہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ کاٹنے کے ہنر میں کمال رکھتے ہیں۔ ارے نہیں نہیں، وہ کاٹنا نہیں، توبہ توبہ اس بار تو آپ بہت ہی غلط سمجھے، ایسا سمجھنے پر آپ کو اللہ سمجھے۔ اگرچہ یہ کاٹا بھی لاعلاج ہوتا ہے مگر یہ وہ کاٹنا نہیں۔ یہ وہ کاٹنا بھی نہیں جس کے بارے میں ہم نے کہیں فخریہ دعویٰ پڑھا تھا ’بے ضرر ختنہ‘۔ دعویٰ تو بنیادی طور پر یہی ہوتا ہے مگر یہ کاٹنا ہرگز بے ضرر نہیں ہوتا، یہ تو اتنا ضرر رساں ہوتا ہے کہ اسے دیکھ کر شاعر مشرق چیخ اٹھتے،’تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے!‘۔
اسے عامل بابا کے عملیات کے ذریعے کالے جادو کی کاٹ بھی نہ سمجھیں، کیوں کہ ڈار صاحب کا اعلیٰ جادو خود اتنا کٹ پھٹ گیا ہے کہ سر چڑھ کر بولنا تو کجا پیر پڑ کر کہہ رہا ہے ’مارے بس کا نئیں ہے بھایا‘ یہ کاٹنا کیا ہے؟ آپ ڈار صاحب سے اپنے جانور کٹوا کر ہی سمجھ سکتے ہیں۔
اسحٰق ڈار کی فنی مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ راوی (دروغ بر گردن راوی اور گردن بر دست ڈار صاحب) کہتا ہے کہ اسحٰق ڈار کا نام دراصل ’اسحٰق دھار‘ ہے، اور جس طرح کثرتِ استعمال سے چُھری کی دھار کُند ہو جاتی ہے اسی طرح شریف خاندان نے اسحٰق ڈار کا نام اور خود انہیں اس کثرت بلکہ بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ ان کے نام کا لاحقہ دھار سے ڈار ہوگیا اور بہ قول شہباز شریف ’پاگلوں کی طرح اپنی صحت خراب‘ کرچکے ہیں۔ بہر حال نام میں کیا رکھا ہے، ڈار صاحب اب بھی پہلے کی طرح تیز دھار ہیں۔
تو ہماری مانیے اور بقر عید پر ڈار صاحب کی خدمات حاصل کیجیے۔ یقین مانیں وہ جانور کو یوں کاٹیں گے کہ اس غریب کو خبر بھی نہ ہوگی کہ کٹ چکا ہے۔ وہ کٹا اور بوٹیوں میں بٹا پڑا ہوگا اور اس کی کونے میں پڑی سِری سے جڑے دانت جُگالی کر رہے ہوں گے اور آنکھیں اپنا ہی گوشت دیکھ کر کہہ رہی ہوں گی ’اوہو، آج تو سرخ سرخ چیریوں کا چارہ ملے گا بابے، بَلّے بَلّے‘۔
یہاں یہ بتانا لازمی ہے کہ ڈار صاحب صرف چھوٹے جانوروں بھیڑ اور بکرے ذبح کرتے ہیں، بڑے جانوروں گائے، بیل، اونٹ کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے، کسی نے ان جانوروں کی طرف اشارہ بھی کیا تو ایک ہاتھ لگا دیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دھول دھپا اس سراپا ڈار کا شیوہ نہیں لیکن یاد رکھیے وہ تو ڈار ہیں ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے اور آٹھویں گھر جاکر کلیجے کا ناشتہ کرتی ہے۔ سو وہ بڑے جانوروں کے بڑے باڑے چھوڑ دیتے ہیں، گویا اس گھر کو آگ نہیں لگے گی گھر کے چراغ سے۔
گائے کے معاملے میں وہ اس لیے محتاط ہیں کہ اسمعٰیل میرٹھی نے کہا تھا ’رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی‘ چنا نچہ وہ سمجھتے ہیں کہ شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گائے کو کچھ نہ کہا جائے اور وہ جہاں جتنا چرتی ہے چرنے دیا جائے، جب ’ہماری‘ گائے کہ بارے میں ان کی یہ سوچ ہے تو سوچیے اللہ میاں کی گائے کے معاملے میں وہ کتنی احتیاط کرتے ہوں گے، اپنے قیاس کی بنا پر وہ مقدس گائے کو اللہ میاں کی گائے سمجھتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ ایسا ہمیشہ سے سمجھتے ہیں یا اس گائے سے لات کھانے کے بعد سمجھنے لگے ہیں، جو بھی ہو مقدس گائے کے بارے میں ان کی طے شدہ حکمت عملی ہے کہ ’دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا‘ ایسے میں ذبح کرنا تو چھوڑیے وہ اس کا دودھ دوہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے، جانتے ہیں کہ ایسی غلطی کی تو یہ گائے دودھ بھی نہیں بخشے گی اور انہیں بھی نہیں بخشے گی۔
بیل سے وہ اس لیے دور رہتے ہیں کہ ایک محاورے کی سراسر غلط تفہیم اور تذکیر و تانیث میں غلطی کے باعث ان کا خیال ہے کہ یہ بیل مینڈھے نہیں چڑھے ’گا‘، پھر ان میں آ بیل مجھے مار جیسی کوئی حرکت کرنے کی تاب نہیں، وہ بیل کو بیلی بنائے رکھنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ رہا اونٹ تو جیسے سیاست دانوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اسی طرح یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اہل سیاست کی طرح اونٹ کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی، جس طرح سیاست داں معیشت سے شوخیاں کرتے ہیں ویسے ہی یہ بلند قامت جانور شتر غمزہ کرتا ہے، اور سب سے اہم یہ کہ یہ صحرا کا جہاز اپنے پیٹ میں کئی دن کی خوراک ذخیرہ کرلیتا ہے اور سیاسی قبیلے کے افراد کے شکم صدیوں کے لیے مال جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ڈار صاحب کو اونٹ سے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔
یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر بڑے جانور ڈار صاحب کی دھار اور وار سے محفوظ ہیں۔ ان کا زور بس چھوٹے جانوروں پر چلتا ہے۔
’ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا‘ کے دعوے کی تکرار سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وزیر خزانہ میں آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کس بلا کی صلاحیت ہے، جسے دیکھتے ہوئے ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بکرے کے گلے پر چُھری چلارہے ہوں گے اور ساتھ اسے مخاطب کرتے ہوئے کہتے جارہے ہوں گے،’نہیں نہیں، تمھاری زندگی کو کوئی خطرہ نہیں، یہ تو میں تمہارا خط بنارہا ہوں، تم زندہ رہو گے، ترقی کروگے، ہوگا دنیا میں تو بے مثال میرے بکرے مرے نونہال‘ اور بکرا اطمینان سے آنکھیں بند کیے یہ سوچ سوچ کر مسکرا رہا ہوگا کہ جب بکری سے ملے گا تو اس کی ترشی ترشائی داڑھی دیکھ کر وہ شرماتے ہوئے کہے گی،’ہائے میں مر جاواں کناں سونڑا لگدا ہے‘۔
وہ مینڈھے کو گرارہے ہوں گے تو اس کی وحشت زدہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چمکارتے ہوئے کہیں گے،’ارے پریشان کیوں ہورہا ہے میرے لال! تیرے لیے پلنگ خریدنا ہے، میں تجھے لٹا کر تیرا ناپ لے رہا ہوں‘۔معصوم مینڈھا ڈار صاحب کا ممتا بھرا لہجہ سن کر آرام سے لیٹ جائے گا۔
یہاں تک کہ ڈار صاحب جانور کو اس بات کا کہ وہ جو کر رہے ہیں اس کے بھلے کے لیے کر رہے ہیں یوں قائل کرلیں گے کہ وہ ذبح ہونے کے بعد بھی سمجھتا رہے گا کہ جو ہو رہا ہے اس کی بھلائی کے لیے ہو رہا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ وزیر خزانہ کھال یہ کہہ کر اتار رہے ہوں گے،’بیٹا! گھبرا کیوں رہا ہے، میں تیرے گندے کپڑے اتار رہا ہوں، عید ہے نا نئے کپڑے پہناﺅں گا اپنے بچے کو‘ اور وہ بے چارہ محبت کے یہ بول سُن یہ بھی بھول جائے گا کہ اس نے کبھی کپڑے پہنے ہی نہیں۔
یہ تو کچھ بھی نہیں، ڈار صاحب میں تو یہ اہلیت بھی ہے کہ وہ زندہ جانور کی چمڑی اتار دیں، خون نچوڑ لیں اور اس کے دل، پھیپھڑے، کلیجی، بھیجا، سری پائے نکال کر رکھ دیں اور وہ جان ہی نہ پائے کہ اس کے ساتھ کیا کارروائی ہوچکی ہے۔
ممکن ہے قصاب بڑی بوٹیاں بنا کر ہاتھ کھینچ لے اور ان بوٹوں کو چھوٹا کرنے سے انکار کردے، مگر ڈار صاحب بڑے شوق اور لگن سے بوٹیاں چھوٹی کرتے جائیں گے، بس انہیں یہ یقین دلانا آپ کا کام ہے کہ یہ بوٹی نہیں پاکستانی عوام ہے، پھر دیکھیے ان کا بُغدا رُکنے کا نام نہ لے گا، اور بوٹے چھوٹے ہوتے ہوتے قیمے کی شکل اختیار کرلیں گے، قیمہ بھی ہاتھ کا نہیں مشین کا۔ آخر آپ کو انہیں روکنے کے لیے ہاتھ پاﺅں جوڑنا پڑیں گے، اس پر بھی نہ رُکے تو میاں نواز شریف سے فون کروانا پڑے گا۔
ان کے ہاتھ میں پائے رکھتے ہوئے بس اتنا کہیے گام ’یہ پائے نہیں ن لیگ کی اعلیٰ پائے کی قیادت ہے، جس سے بال اور کُھر نہیں مقدمات صاف کرنے ہیں‘ یہ سنتے ہی وہ کُھر اور بال ایسی صفائی سے صاف کریں گے کہ لگے کا بکرے کی ٹانگوں پر کھر اور بال نامی کوئی شے کبھی تھی ہی نہیں۔
تو صاحب! اس بقرعید پر ڈار صاحب کو آزماییے، لیکن جب وہ کام پورا کرکے جانے لگیں تو احتیاطاً اپنی کھال اور اعضا ٹٹول کر دیکھ لیجیے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔