نظامِ انصاف کی فراہمی میں دنیا کے 140 ملکوں میں پاکستان کا درجہ 129 واں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس سال ماہِ فروری تک کل 52450 مقدمات زیرالتوا تھے جہاں تقریبا 3ماہ کی چھٹیوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے۔
اسی سال مارچ میں پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں 18 لاکھ 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرِالتواء ہیں جبکہ ہائیکورٹس گرمیوں میں 2 ماہ اور ضلعی عدالتیں گرمیوں میں ایک ماہ چھٹی پہ چلی جاتی ہیں۔ اس پر پنجابی فلم میں سلطان راہی کا ادا کردہ ایک ڈائیلاگ یاد آتا ہے کہ ظلم 24 گھنٹے اور انصاف صرف 8 گھنٹے؟
ہمارے نظامِ انصاف کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔ خاص طور پر جج صاحبان کی اور عدالتی مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے زیادہ ججوں کی تقرری ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب زندگی کے باقی تمام شعبہ جات میں سال بھر کام جاری رہتا ہے، مزدور، کسان، تاجر، کارخانے فیکٹریاں سب پورا سال کام کر کے ریاست کو ٹیکسوں کی شکل میں پیسہ دیتے ہیں تو ایسے میں سرکاری نظام کا ایک حصہ یعنی نظام انصاف جس کی پہلے ہی حالت بہت خراب ہے وہ چھٹیوں پر کیوں چلا جاتا ہے،؟
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جی ایم چوہدری نے بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کا ذکر نہ آئین میں ہے نہ قانون میں۔ انہوں نے بتایا کہ 5سال پہلے انہوں نے سپریم کورٹ میں ان چھٹیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی جسے تکنیکی بنیادوں پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ یہ مفادِ عامہ کا مقدمہ نہیں۔
عدالتی چھٹیوں کی تاریخ کیا ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے بتایا کہ برصغیر میں سارے جج انگریز ہوتے تھے اور 1890 میں سید امیر علی پہلے مسلمان تھے جو بنگال ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں چونکہ ججوں کی اکثریت انگلستان سے آتی تھی اس لیے انہیں 3 مہینے کی چھٹیاں دی جاتی تھیں، جن میں ایک مہینہ وہ بحری جہاز کے ذریعے سفر کر کے انگلستان پہنچتے، ایک مہینہ بچوں کے ساتھ گزار کر ایک مہینے میں واپس ہندوستان آتے۔ اس کے علاوہ انگلستان میں سرکاری چھٹیوں کا رواج اس لیے تھا کیونکہ وہاں شدید برف باری کی وجہ سے سارا نظام زندگی متاثر ہو جاتا تھا۔
آج کل کی صورت حال میں ہمارے پاس بہترین ائر کنڈیشنڈ عدالتیں ہیں جنہیں گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رکھنے کا پورا انتظام ہوتا ہے، ایسے میں چھٹیوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے علاوہ سردیوں میں 15دن کی عدالتی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں حالانکہ 25 کروڑ لوگوں کے ملک میں انسانی حقوق سے متعلق سنگین نوعیت کے مقدمات ہوتے ہیں جن پر عدالتوں کو توجہ دینی چاہیے۔
کیا عدالتی چھٹیوں کے بارے میں کوئی قانون ہے؟
اس بارے میں جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئین میں ان چھٹیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں، نہ ہی اس بارے میں کوئی قانون ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ رولز کے مطابق چیف جسٹس صاحبان ان چھٹیوں کا اعلان کرتے ہیں۔
سینیئر وکیل علی عظیم آفریدی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی چھٹیوں کی کوئی منطق نہیں۔ ایک دو ججز اگر کسی ضرورت کے تحت چھٹیوں پہ چلے جائیں تو سمجھ آتی ہے لیکن ایک ساتھ ججوں کی اکثریت کا چھٹیوں پر چلے جانا بنیادی طور پر غلط ہے۔
علی عظیم آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ججوں کو کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن اس طرح سے چھٹیوں پر چلے جانا نظام کے لیے درست نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی چھٹیوں کا نہ کوئی قانونی، نہ آئینی اور نہ ہی اخلاقی جواز ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک مختلف موقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چھٹیوں سے عدالتی امور پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ڈیوٹی ججز موجود ہوتے ہیں جو ارجنٹ نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چھٹیوں میں بھی 50فیصد وکلا عدالتوں میں تو آتے ہیں جبکہ ضمانت، ریمانڈ اور اسی نوعیت کے دیگر مقدمات سنے جاتے ہیں۔ حسن رضا پاشا نے کہا کہ عدالتی چھٹیاں انگریز دور کی روایت ہے اور اب تک چلی آ رہی ہے۔