ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کی جنت نظیر سیاحتی وادی ہنزہ میں عیدالاضحیٰ پر قربانی کی اپنی منفرد روایت ہے۔ جو سالوں سے چلی آر ہی ہے۔ جس کے تحت تمام رہائشیوں میں قربانی کا گوشت مساوی ملتا ہے۔
ہنزہ کے مکینوں کے مطابق اس قدیمی روایت کا آغاز علی آباد ہنزہ سے ہوا تھا، تاہم اب گلگت بلتستان کے اکثر علاقوں میں اس روایت پر عمل کیا جانے لگا ہے۔
کمیونٹی سینٹر کا کردار
شوکت، علی آباد کے کمیونٹی سینٹر کے انچارج اور رضاکاروں کے ہیڈ ہیں۔ یہ قربانی کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ شوکت علی نے وی نیوز کو بتایا کہ اس روایت کے تحت قربانی کا ذبح شدہ جانور کمیونٹی سینٹر لایا جاتا ہے، جہاں پہلے اس کا وزن ہوتا ہے اور پھر بوٹیوں کی شکل میں بنایا جاتا ہے۔
پہلے جانور کمیونٹی سینٹر میں ذبح کیے جاتے تھے۔ لیکن جگہ تنگ ہونے اور گندگی سے بچنے کے لیے اب رضاکاروں کی مدد سے جانور گھروں پر ذبح کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح اور صاف صفائی کے بعد گوشت کو بغیر کاٹے کمیونٹی سینٹر لایا جاتا ہے۔ اور تمام گوشت لائے جانے کے بعد پہلے وزن کیا جاتا ہے۔ اور پھر کاٹنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ یہ سب کام رضاکار انجام دیتے ہیں اس میں قربانی کرنے والوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
گوشت کی مساوی تقسیم
شوکت نے ہنزہ کی روایت کے مطابق قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کے حوالے سے بھی بتایا کہ اس روایت کے مطابق سب کا گوشت کا برابر حصہ ملتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انہوں نے قربانی کا جانور خریدا ہے یا نہیں۔
شوکت کے مطابق رضاکار پہلے گوشت کو آبادی کے حساب سے پیک کرتے ہیں اور گاؤں کے ایک سرے سے تقسیم شروع کرتے ہیں۔
کوئی قربانی کا گوشت فریز کرکے نہیں رکھتا
رضاکار احمد علی جو تقسیم کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں وی نیوز کو بتایا کہ اس روایت کے تحت سب کو گوشت مل جاتا ہے اور کوئی قربانی کا گوشت فریز کرکے نہیں رکھتا۔
یہ تقسیم کمیویٹی سینٹر کے تحت کرتے ہیں۔ ہر گاؤں میں الگ الگ سینٹرز جو یہ کام اپنی اپنی حدود میں انجام دیتے ہیں۔
5 کلو گوشت سب کو ملا
احمد علی نے بتایا کہ علی آباد کمیونٹی سینٹر کی آبادی 600 کے قریب ہے جس میں مقامی افراد کے علاوہ مسافر، کرایہ دار اور دیگر لوگ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار عید قربان پر سب کو 5 کلو گوشت ملا۔ ہمارے کمیونٹی سینٹر کی حدود میں رہنے والے مقامی اور غیر مقامی سب کو مساوی گوشت دیا گیا۔
رضاکار خود ہر گھر میں گوشت تقسیم کرتے ہیں
شوکت نے بتایا کہ ان کے رضاکار گوشت تھیلوں میں پیک کرنے کے بعد ہر ایک گھر میں پہنچاتے ہیں، اور یقینی بناتے ہیں کہ کوئی رہ نہ جائے۔
ان کے مطابق تقسیم کا عمل شفاف ہوتا ہے۔ جس پیک میں جس طرح کا گوشت ہو وہ اس گھر والے کی قسمت، کسی کو الگ خاص گوشت نہیں دیتے۔
عمر رسیدہ اور پرہیز کرنے والوں کے چھوٹا گوشت
احمد علی نے بتایا کہ تقسیم مساوی کرتے ہیں لیکن کسی گھر میں بیمار ہو یا مریض ہو جو بڑا گوشت کھانے سے پرہیز کرتا ہو تو اس گھر میں چھوٹا گوشت دیتے ہیں۔
احمد علی کے مطابق یہاں بیل اور بکرے کی قربانی زیادہ کرتے ہیں کیونکہ اکثر خود پالتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چھوٹا گوشت بھی کافی ہوتا ہے، ایسے میں ایسے بزرگوں اور مریضوں کے لیے چھوٹا گوشت آسانی سے پورا ہو جاتا ہے۔
ہنزہ کے قدیم روایت کی پیروی
ہنزہ اور گلگت بلتستان کے مکینوں کے مطابق قدیم روایت کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اب ہنزہ کے علاوہ سینٹرل گلگت اور بلتستان میں بھی اسی روایت کی پیروی کی جا رہی ہے۔
ارسلان علی کا تعلق سینٹرل گلگت سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کچھ سالوں سے ان کے ہاں بھی اجتماعی قربانی اور مساوی تقسیم کا طریقہ کار شروع ہو گیا ہے۔یہ بہت اچھا ہے۔ قربانی کرنے والے کے نام کا بھی اکثر پتا نہیں ہوتا اور گوشت برابر ملتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گلگت کے علاوہ بلتستان میں بھی یہ روایت مقبول ہو رہی ہے۔
اجداد کی صدیوں پرانی روایت پر فخر ہے
ہنزہ میں 100 فیصد اس روایت پر عمل ہوتا ہے۔ کوئی الگ یا خود قربانی نہیں کرتا، اور نہ ہی الگ گوشت تقسیم کرتا ہے۔ مکینوں کے مطابق اس میں زیادہ ثواب ہے۔
شوکت علی کے مطابق ہنزہ کے مکین اپنے آباء و اجداد کی صدیوں پرانی روایت پر عمل پیرا ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ اب دیگر علاقوں میں لوگ اس کی پیروی کررہے ہیں۔