بچپن کے کھیل میں تفریح کا ایک کھیل ’مداری ‘کا بھی تھا۔ جس میں’ استاد‘ اور ’جمورا ‘دو کردار ہوتے تھے ۔کھیل کی بساط بچھانے کے بعد استاد جمورے سے مخاطب ہوتا کہ کھیل کھیلے گا؟ اور تابعدار جمورا جواب دیتا جی استاد جی۔ اور یوں یہ دلچسپ کھیل شروع ہو جاتا۔
یہ کھیل اب بھی کھیلا جاتا ہے،اور اس کی مقبولیت آج بھی پہلے دن کی طرح قائم و دائم ہے۔ لیکن وقت بدل گیا ہے اور استاد کے انداز بھی ۔ اب یہ قومی کھیل کے طور پر کھیلا جاتا ہے،جس میں ایک نہیں کئی جمورے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ استاد جمورے کو ’پانچ‘سال کے کانٹریکٹ پر اپنے ساتھ رکھتا ہےاور خود پردہ نشین ہو کر ڈوریاں ہلاتا ہوا کھیل سے محظوظ ہوتا ہے ۔نہیں بدلا تو استاد کے ہاتھ میں وہ ڈنڈا جو بدستور موجود ہے ۔ جس کو بہت نظر انداز کیا گیا لیکن اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ۔ بس وقت کے ساتھ ڈنڈا جدید ہو گیا اور خاکی وردی والوں کے پاس چلا گیا لیکن یہ اتنا ہی فعال ہے جتنا ہزاروں برس قبل تھا۔جو خود کو منواتا رہا ہے اور منوا رہا ہے ۔ یہ پانچ سالہ ’جموروں‘ کا چارہ ساز بھی ہے اور غمگسار بھی۔
ڈنڈے کے بے شمار کمالات ہیں ۔ڈنڈا گھومے توووٹ خریدے جاتے ہیں، پارٹیاں بدلی جاتی ہیں ، نئی جماعتیں معرض وجود میں آتی ہیں ، یہ ڈنڈا ہی ہے جو مذاکرات کی میز پر لانے کی طاقت رکھتا ہے،اور تو اور ایکسٹینشن لینے کی خواہش کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ڈنڈے سے محاذ آرائی کا انجام سیاست اور سیاستدانوں کے حق میں کبھی اچھا ثابت نہیں ہوا۔
جس نے محاذ آرائی کی اوراس نے گھر کی راہ لی،اسی جرم کی پاداش میں اپریل 1953 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ذوالفقار علی بھٹو جو مارشل لاء کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کے خواہشمند تھے ،مارشل لاء کی ہی حکومت نے ان کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔
بے نظیر بھٹو بھی طاقتور ادارے کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے اپنی مُدتِ اقتدار کو پورا نہ کر سکیں۔’ریاست کے اندر ریاست ‘کا بیان دینے والے یوسف رضا گیلانی کو بھی اپنے بیان کی قیمت چکانی پڑی۔
جوش میں آ کر اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لینے والے نواز شریف کو ڈنڈے کی طاقت دکھائی گئی۔’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کہنے والے نواز شریف تین بار اقتدار میں آئے لیکن مدت پوری نہیں کر سکے۔اور ’ڈان لیکس‘ ان کی تا حیات نا اہلی کے پیچھے ایک بڑا محرک رہی۔اور ان کو سائیڈ لائن ہو کر قیمت چکانی پڑی۔
ڈنڈے نے کمال دکھایا تو 2018کے انتخابات سے پہلے لوگ مختلف جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔اورایک نئی سیاسی جماعت نے اقتدار کی راہداریوں پر پڑائو ڈالا۔ لیکن 9اپریل 2022کومدِ مقابل آنے کے جرم کی پاداش میں ڈنڈا گھمایا گیا اور جن افراد کے ووٹوں کی مدد سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا انہی لوگوں نے تحریک عدم اعتماد کے لیے حزب اختلاف سے ہاتھ ملا لیے اور اپنی ہی حکومت ختم کرنے کا قدم اٹھایا۔ اور اس میں آخری کیل 9مئی کو ٹھونکا گیا۔
پہلےسویلین بالادستی کی آواز بلند کرنے والے نواز شریف تھے لیکن عمران اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔ اب عمران خان سیویلین بالادستی کی دہائی دے رہے ہیں لیکن پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گئی ہے۔ اور مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں، جس کے ساتھ عوام ہوں اسے بیساکھیوں کی ضرورت نہیں کہنے والےعمران خان کو پیغام دے دیا گیا کہ جب تک اشاروں پر ناچتے رہیں تب تک کھیل میں شامل رہیں گے اورجس دن من مانی کی کوشش کی ڈنڈے کی طاقت سے کھیل سے باہر پھینک دیے جائیں گے، کیونکہ ’ریڈ لائن‘ آپ نہیں ہم ہیں اور یہ کہہ کر مذاکرات کی سفارش پربھی کانٹا لگا دیا گیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر ڈنڈے کے زور سے من پسند سیاسی حکومت لانے اور اس کو چلانے میں کتنی کامیاب ہو گی ۔اور ان کی مدد سے بننے والی حکومت کی کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے۔کیونکہ پاکستان میں طاقت ہمیشہ جرنیلوں کے پاس رہی ہے اور اقتدار ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں کے پاس۔
بزرگوں کا ایجاد کردہ یہ کھیل نسل در نسل آگے بڑھ رہا ہے اور اس کی مقبولیت بھی پہلے دن کی طرح قائم و دائم ہے۔سیاسی کھیل میں نہ جمورا بدلا، نہ استاد اور نہ ہی اسکرپٹ۔ بس باریاں تبدیل ہوتی ہیں، ڈنڈا وہی رہتا ہے اور اس کی طاقت بھی ۔جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔’فوجی ڈنڈے‘ چلتے ہیں تو ’انقلابی‘ بھی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں ۔ عوام کی قسمت بہرحال ڈنڈے ہی سے جڑی ہے۔ اور آواز اٹھانے والے عوام کو ڈنڈے کے زور سے مطمئن کیا جاتا ہے ۔