ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے اسامہ ستی قتل کیس میں دو ملزمان کو سزائے موت اور تین ملزمان کو عمرقید کی سزا کا 44 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے ملزم مدثر مختیار نے گولی نہیں چلائی۔ ملزم شکیل احمد گاڑی چلا رہا تھا۔ ملزم سعید احمد نے مشین گن سے ایک فائر کیا۔ ملزم افتخار نے 9 ایم ایم سے 4 اور ملزم مصطفیٰ نے ایس ایم جی سے 17 فائر کیے ۔
پوسٹمارٹم کے مطابق اسامہ ستی کی موت زخموں اور قریباً 2 لیٹر خون ضائع ہونے سے ہوئی ۔مقتول کے سر، بازو اور جسم کے مختلف حصوں پر 11 گولیوں کے زخم تھے۔ مقتول کے والد کے مطابق اسامہ ستی کی ایک دن قبل پانچوں ملزمان سے تلخ کلامی ہوئی تھی ۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے مقتول کے والد کے مطابق پانچوں ملزمان نے اسامہ ستی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔
واقع کے چشم دید گواہ کے مطابق سرینگر ہائی وے پر پولیس کی گاڑی نے چھوٹی گاڑی کو روک کر گولیاں چلائیں۔ فورینزک رپورٹ کیمطابق 17 ایس ایم جی ثبوتوں سے ظاہر ہوتا ہے ملزمان نے جان بوجھ کر اسامہ ستی پر گولیاں چلائیں۔ مصطفیٰ ،ایک ایس ایم جی سعید اور چار نائن ایم ایم کی گولیاں افتخار کے ساتھ میچ کیں ۔
فورینزک کے مطابق اسامہ ستی کی گاڑی پر 19 گولیوں کے داخل اور 8 گولیوں کے خارج ہونے کے نشانات تھے۔ملزمان کی جانب سے 22 فائر کیے گئے لیکن ایک بھی اسامہ ستی کی گاڑی کے ٹائروں کو نہیں لگا ۔
ملزمان نے اسامہ ستی کو ہسپتال لےکر جانے کے بجائے لاش کافی وقت سڑک پر رکھے رکھی۔15 نے بھی ریسکیو 1122 کو جائے وقوعہ کا غلط پتا بتایا، ایمبولینس کچھ وقت بعد واپس چلی گئی۔ ثبوتوں کی بنیاد پر مصطفیٰ اور افتخار کو سزائے موت کا حکم دیاجاتاہے۔ ثبوتوں کی بنیاد پر مدثر، شکیل اور سعید کو عمرقیدکی سزا سنائی جاتی ہے۔