دو روز قبل بلوچستان کے ضلع شیرانی میں دھانہ سر کے مقام پر نامعلوم شر پسندوں نے سکیورٹی فورسز چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تھا، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک ایف سی اور 3 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی شر پسندوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ، حملوں اور خودکش دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 24 جون کو ضلع کیچ کے شہر تربت میں پولیس اور ایف سی کی گاڑی پر خاتون خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جانبحق جبکہ ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت 3 زخمی ہو گئے تھے۔ اسی طرح یکم جون کو ضلع کیچ میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے میں ایف سی بلوچستان کے 2 اہلکاروں کی جام شہادت نوش کیا۔
مجموعی طور پر ایک ماہ کے دوران دہشت گردوں کی فائرنگ، حملوں، دھماکوں اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے دوران 9 سیکیورٹی اہلکاروں نے وطن عزیز پر جان نچھاور کر دی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں یک دم سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند نوجوانوں کی کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت؟
دفاعی ماہرین کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خود کو منظم کرنے کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی اس تنظیم سازی کی دوران بلوچستان مکران ڈویژن سے گزشتہ برس بلوچ علیحدگی پسند نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کے جاری کردہ بیان کے مطابق بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مزار بلوچ کی سربراہی میں ٹی ٹی پی کے امیر ابو منصور عاصم مفتی نور ولی کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔
قلات اور مکران کو ولایت کا درجہ دیکر شاہین بلوچ کو ولی مقرر کیا گیا
اس کے علاؤہ گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے صوبہ بلوچستان میں ولایت میں بھی اضافہ کیا گیا۔ ٹی ٹی پی کے جاری کردہ بیان کے مطابق تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ نے اپنے ایک اجلاس میں قلات اور مکران کو ولایت کا درجہ دیتے ہوئے شاہین بلوچ کو اس کا ولی مقرر کیا گیا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے نے 2018 کے بعد خود کو جدید طرز پر تیار کیا ہے
بلوچستان کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے نے بھی 2018 کے بعد خود کو جدید طرز پر تیار کیا ہے۔ 2 سال کے دوران 2 خاتون خود کش حملہ آوروں نے فدائی حملے کیے جبکہ بی ایل اے کے ایک بیان کے مطابق 100 سے زائد نئے فدائیوں نے بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ صوبہ بین الااقوامی سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں؟
دفاعی ماہرین کا موقف ہے کہ بلوچ کالعدم تنظیموں اور تحریک طالبان نے ماضی کی نسبت اپنی کارروائیوں میں شدت لاتے ہوئے سیکیورٹی کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ جس سے دہشت گرد یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوتے جا رہی ہیں۔ دوسری جانب سیکیورٹی پر حملوں سے یہ تاثر بھی عام ہو رہا ہے کہ صوبہ بین الااقوامی سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں اور سی پیک جیسے منصوبے سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
مٹھی بھر شر پسند بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، ترجمان وزیراعلیٰ بلوچستان بابر یوسفزئی
بلوچستان میں دہشت گردوں کے سیکیورٹی فورسز پر حملوں سے متعلق وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ترجمان وزیراعلیٰ بلوچستان بابر یوسفزئی نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو نشانے بنانے کی وجہ دہشتگردوں کی بوکھلاہٹ ہے۔ افواج پاکستان، ایف سی، پولیس اور لیویز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اب یہ مٹھی بھر شر پسند وہ بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔
شدت پسند سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر اپنی تحریک کو کامیاب ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
بابر یوسفزئی نے مزید کہا کہ شر پسند عناصر کے پاس سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی کوئی بھی تفصیلات موجود نہیں ہوتیں۔ سیکیورٹی فورسز ہر وقت عوام کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں تاہم اس دوران شدت پسند اپنی کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔ ہماری کوشش ہے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ شدت پسند سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر اپنی تحریک کو کامیاب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔