سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ندا الریمی بے باک آرٹسٹ ہے جس نے اپنے جذبات کو مجسموں کی شکل دی ہے، ندا الریمی کا کام مٹی کے ایک بلاک کے سامنے 7گھنٹے سے زیادہ وقت تک کھڑے رہنا، آنکھوں، ناک اور چہرے کی دیگر خصوصیات کو مٹی پر تراشنا اور اس وقت تک تراشتے رہنا جب تک جذبات کی عکاسی مکمل نہ ہوجائے۔
سعودی مجسمہ ساز نے اپنے کیریئر کا آغاز تجسس اور کچھ نیا کرنے کی خواہش کی بنیاد پر کیا، اپنی صلاحیتوں کو دریافت کیا اوراپنے شوق کے لیے نئی نئی مہارتیں سیکھیں۔
معروف اخبار’عرب نیوز‘ کے مطابق ندا الریمی کا کہنا ہے کہ جب میں نے اپنا پہلا مجسمہ مکمل کیا، تو مجھے خوشی اور کامیابی کا احساس ہوا جو باقی تمام احساسات پر حاوی تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنی خصوصیات کی نمائندگی کرنے والا ایک اور مجسمہ بنایا۔ جب مکمل ہو گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں کوئی بھی مجسمہ بنا سکتی ہوں۔
ندا الریمی نے بتایا کہ بچپن میں مجھے پینٹنگ اور آٹے سے کھیلنے کا بہت شوق تھا، میری ماں مجھے سکھاتی تھی کہ اس سے چیزیں کیسے بنائی جاتی ہیں۔
’جب میں بچپن کے ان دنوں کو زندہ کرنا چاہتی ہوں، تو میں مٹی سے مجسمہ بنانا شروع کر دیتی ہوں۔‘
ندا الریمی نے مزید کہا کہ میں پہلے آٹے کے ساتھ بہت کھیلا کرتی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میری ماں نے مجھے سب سے پہلے پھول بنانا سکھایا تھا۔
ندا الریمی ایک سعودی مصورہ اور مجسمہ ساز ہیں جن کا کام مملکت کی متعدد گیلریوں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ 2020 میں، ندا کو کینیڈین امریکن بورڈ فار پروفیشنل ٹریننگ نے پینٹنگ اور مجسمہ سازی کے استاد کے طور پر سند دی تھی۔
سند حاصل کرنے کے بعد جب ندا واپس آئیں تو ان کے خاندان نے ان کے طرزعمل میں نمایاں تبدیلی دیکھی، جس پر خاندان والوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اسی پروفیشن کو جاری رکھیں اور اس کو اپنا کیریئر بنائیں۔
خاندان والوں کی مکمل سپورٹ کی بنا پر ندا الریمی نے مٹی سے مجسمہ سازی کو بطور پروفیشن چن لیا جس کے بعد ان کےغیر روایتی فن پاروں کو 7سے زیادہ گیلریوں میں دکھایا گیا، لیکن مقامی لوگوں کی جانب سے پذیرائی نہ مل سکی جس کی وجہ اس آرٹ کی مقبولیت کا کم ہونا ہے۔
ندا الریمی نے بتایا کہ سعودی عرب میں مجسمہ سازی کے فنکار نایاب ہیں، اور یہ فن مقامی لوگوں کی طرف سے زیادہ پہچان کا مستحق ہے۔ شکر ہے کہ اسے مملکت کی حمایت حاصل ہے لیکن پھر بھی، یہ ابھی تک مقامی لوگوں میں مقبول نہیں ہے۔
ندا الریمی کے مطابق، آرٹ میں ایک خاص صلاحیت ہے کہ وہ ایک شخص کو اپنے ساتھ بات چیت کرنے اور زیادہ سوچنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی رکاوٹوں کو دور کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ آرٹ اور دماغی صحت کا آپس میں تعلق ضرور ہے اور وہ اکثر اپنے مجسمے میں اپنے جذبات کو انڈیلتی ہے۔
’مجسمہ سازی کے لیے لگن اور وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ ایک سیشن 7گھنٹے تک چل سکتا ہے، ایک مجسمہ کو مکمل ہونے میں 2سے 3سیشنز لگتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک ان کا شاہ سلمان کا مجسمہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان کے مجسمے پر انہیں 3 سیشنز لگے اور اسے مکمل ہونے میں 21 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اپنے اب تک کے بہترین کاموں میں سے ایک سمجھتی ہیں۔
ندا الریمی کی خواہش ہے کہ اس آرٹ کومزید فروغ دینا چاہیے، اور امید بھی ہے کہ ان کے مجسمے ایک دن سعودی مملکت کے چوکوں اور چوراہوں میں نمائش کے لیے پیش کیے جائیں گے۔
’مجھے امید ہے کہ کسی دن ایک ایسا مجسمہ تیار کروں گی جو ہماری صدی کے جدید فنون میں سے ایک کے طور پر پہچانا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں میں رکھا جائے گا۔‘