ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیش نظر ایک بار پھر حکومت کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز (آئی ایم ایف) کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹاف لیول معاہدہ کا اعلان کردیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے 3 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی ابتدائی منظوری ملی ہے۔
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اسٹاف لیول معاہدہ کی منظوری دے گا جب کہ ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس جولائی کے وسط میں ہوگا۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ جس کے بعد پاکستان کو 3 ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جانے کے بعد یک دم ڈالر کی اڑان میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران اکثر بینکوں میں ڈالر کی قدر میں 16 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جس کے بعد ڈالر 275 روپے تک پہنچ چکا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے سے سرحدی تجارت کو فروغ ملے گا یا نہیں؟
صوبہ بلوچستان جغرافیائی طور پر دنیا بھر میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس خطے کو ایک جانب سے گہرا سمندر، ایک جانب سے ایران اور ایک جانب سے افغانستان کی سرحد لگتی ہے۔ صوبے کے تاجر ایران اور افغانستان سے سالانہ اربوں روپے کی تجارت کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف معاہدے سے سرحدی تجارت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سوال سے متعلق سابق صدر ایوان صنعت و تجارت بلوچستان فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے سے ایک بار پھر درآمدات کے شعبے میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی بڑھتی قدر کی وجہ سے تاجروں کو درآمدات میں بڑے پیمانے پر نقصان ہو رہا تھا جس کا براہِ راست اثر عام عوام پر پڑ رہا تھا۔ تاجر مہنگے داموں اشیا کی خریداری کررہے تھے جس کے بعد دیگر اخراجات ڈال کر جب ان اشیا کو مارکیٹ میں فروخت کے لیے لایا جاتا تھا تب وہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی تھیں۔
فدا حسین کے مطابق آئی ایم ایف کے معاہدے سے ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوگی جس سے درآمدات کے وقت کم قیمت پر اشیا کی خریداری ممکن ہو سکے گی ایسے میں اس معاہدے سے ہونے والے اثرات ایک ماہ کے دوران مارکیٹ پر مثبت انداز میں مرتب ہوں گے اور بڑھتی منہگائی کو بھی لگام ملے گی۔
فدا حسین کے مطابق ایران اور افغانستان سے تجارت کے دوران خشک میوہ جات، پیٹرولیم مصنوعات، ایل پی جی، قالین، کمبل، تعمیراتی اشیا سمیت کئی اہم اشیائے ضروریہ درآمد کی جاتی ہیں جبکہ چاول، گندم، دالیں، گھی اور پھولوں سمیت کئی اشیا ضرورت برآمد کی جاتی ہیں تاہم دونوں صورتوں میں ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔