پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان 3 ارب ڈالر کا اسٹاف لیول کا اسٹینڈ بائی معاہدہ ہوچکا ہے اور رقم پاکستان کو موصول بھی ہوچکی ہے، لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کا یہ معاہدہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو کم کرسکے گا؟
اس حوالے سے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی جنہوں نے معاہدے کے بعد کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مہتاب حیدر نے بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی کی 2 وجوہات ہیں ایک تو ملک میں مصنوعات کی فراہمی میں تعطل ہے اور دوسری درآمدات کی اضافی شرح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ماہانہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے مگر مہنگائی کی شرح میں کمی یا زیادتی کا اندازہ ہماری درآمدات سے لگایا جائے گا۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ جہاں تک آئی ایم ایف کی ڈیل کی بات ہے تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات میں بجلی کی فی یونٹ قیمت اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی زیادہ وصول کرنا شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے فی یونٹ پر 8 روپے 25 پیسے جبکہ وزیر خزانہ کی جانب سے 3 سے 4 روپے کا کہا گیا ہے۔
مہتاب حیدر نے کہا کہ ہر وہ چیز جو درآمد کی جاتی ہے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انٹرنیشل مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی ہیں اور پاکستان وہ اشیا درآمد کرتا ہے تو ان تمام چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور مہنگائی ہوگی۔
معاشی ماہر ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اتنی جلدی کمی نہیں آئے گی اور اس میں کم از کم تقریبا 6 مہینے ضرور لگیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی پچھلے سال کے مقابلے میں مہنگائی کی اوسط شرح تقریباً 30 فیصد ہے مگر اندازہ ہے کہ آئندہ سال مہنگائی کی شرح میں واضح کمی ہوگی اور اس کی شرح تقریباً 22 فیصد تک جا سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کمی تب ہوسکتی ہے جب ملک میں خود سولر، پانی، کوئلے وغیرہ سے بجلی پیدا کی جائے تاکہ درآمدات پر زرمبادلہ خرچ نہ ہو۔
معاشی ماہر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈیز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے مگر دوسری جانب درآمدات کھولنے سے مارکیٹ اور صنعتوں کی سپلائی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی کیونکہافراط زر پر مثبت اثر پڑے گا۔ تو فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا یا پھر کمی۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھ جائیں گے جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
اسلام آباد کے رہائشی اور سافٹ ویئر انجینئر محمد شاہد نے وی نیوز کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے پر وہ نہایت خوش ہوئے کیونکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق انہیں یہی لگ رہا تھا کہ معاہدہ طے پاتے ہی چند مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں واضح کمی دیکھنے کو ملے گی لیکن حقیقت شاید ان کی سوچ کے بر عکس ہے۔
محمد شاہد نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ مہنگائی کی شرح کم ہونے کے فی الحال کوئی امکانات نہیں ہیں مگر ٹیکسز بہت زیادہ بڑھا دیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن بنیادی ضروریات کو لگژری سمجھا جا رہا ہے ان پر الگ ٹیکسز ہیں اور ان کے خیال میں عام آدمی کو اس معاہدے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔