جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان محمد خالد خورشید گلگت بلتستان کے ضلع استور کے ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد پیشے سے لحاظ سے جج تھے۔ خالد خورشید 27نومبر 1980کو پید ا ہوئے۔
خالد خورشید نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سال 2009 میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے کر کیا تھا جس میں انہیں ناکامی ہوئی تھی اس کے باوجود وہ گلگت بلتستان کی سیاست میں سرگرم رہے اور سال 2018 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔
2020 میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ہونے والے انتخابات میں اپنے آبائی حلقے جی بی اے 13 (استور ایک) سے تحریک انصاف کی جانب سے دوبارہ الیکشن میں حصہ لیا اور مد مقابل ن لیگ کے امیدوار کو شکست دے کر پہلی بار قانون ساز اسمبلی کے ممبر بن گئے۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں تحریک انصاف کو واضح اکثرت مل گئی جس کے بعد عمران خان نے 27نومبر 2020 کو خالد خورشید کو وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے نامزد کیا اور 30 نومبر 2020 کو محمد خالد خورشید گلگت بلتستان کے تیسرے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔
جعلی ڈگری کیس کا پس منظر
خالد خورشید خان کے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بننے کے بعد ہی ان کی ڈگری کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سابق ممبر اور سابق وزیر فرمان علی خان نے گزشتہ سال الیکشن کمیشن میں خالد خورشید کی تعلیمی اسناد کو چیلنچ کیا تھا۔
خالد خورشید نے الیکشن کمیشن میں تعلیمی اسناد کے حوالے سے سماعت کو گلگت بلتستان چیف کورٹ میں چیلنچ کیا جس پر اعلیٰ عدالیہ نے الیکشن کمیشن کو مزید سماعت سے روک دیا تھا۔
لاجر بینچ کی تشکیل
وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے گلگت بلتستان چیف کورٹ میں اپنے خلاف زیر سماعت جعلی ڈگری کیس کو سننے کے لیے لارجر بینج تشکیل دینے کی درخواست جون میں دی تھی جو منظور ہو گئی۔
چیف کورٹ نے 3 ججز پر مشتمل لارجز بینج تشکیل دے کر کیس کا فیصلہ جلد کرنے کا حکم دیا تھا۔
کیا 9 مئی کے بعد خالد خورشید پر دباؤ بڑھ گیا تھا؟
تحریک انصاف کی جانب سے حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانات اور مظاہروں میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی شرکت اور دیگر سرگرمیوں پر کچھ حلقے ان سے سخت ناراض ہیں۔ جس سے وزیر اعلیٰ کی پریشانیاں بڑھ گئی تھیں اور ان پر عدالتی فیصلے سے پہلے استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ تاہم اس وقت وزیر اعلیٰ کے ترجمان نے وی نیوز کو بتایا تھا کہ خالد خورشید استفعیٰ نہیں دیں گے بلکہ اپنا کیس لڑیں گے۔