وطن عزیز کے ان گنت علاقے سیاحوں کی جنت کے طور پر گردانے جاتے ہیں لیکن کچھ اندرونی و بیرونی عوامل کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے غیرملکی سیاح پاکستان کی جنت نظیر وادیوں کا رخ کرنے سے کتراتے تھے تاہم یہ بات قصہ پارینہ ہوچکی اور غیرملکی باشندے اب خاصی تعداد میں خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دکھائی دے رہے ہیں۔ روئے زمین کے حسین ترین ٹکڑوں میں سے ایک فیری میڈوز میں بھی قدرتی مناظر سے پیار کرنے والے غیرملکی سیاحوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان پھر سے سیاحت کے لیے ایک بہترین اور محفوظ ملک سمجھا جانے لگا ہے۔
اسکولوں کی تعطیلات اور گرمی کا زور بڑھتے ہی جہاں پاکستان کے شہری شمالی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں وہیں ان دنوں یورپ، امریکا، چین اور دیگر ممالک سے بھی سیاح جوق در جوق یہاں پہنچ رہے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد گلگت بلتستان کے علاقے فیری میڈوز میں بھی پائی گئی جو ایک ایسا منفرد سیاحتی مقام ہے جسے دیکھنے کے بعد اس کے سحر سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے اس لیے دنیا بھر کے سیاح بھی اس مسحورکن وادی کو دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کی سحر انگیزی میں گم ہو جاتے ہیں۔
پریوں کا مسکن
سر سبز گھاس، بہتے جھرنے، دیودار کے گھنے درخت، خوشنما رنگوں کے پھول، ان گنت پرندوں کی مسحور کن آوازیں، گھوڑوں کی ہنہناہٹ، مکانات اور ان کی چمنیوں سے نکلتا دھواں، تاتو نالے کا شور اور نانگا پربت سے آتی ٹھنڈی ہوا کی سائیں سائیں ایک الگ ہی سماں پیدا کرتے ہیں۔ ان برف پوش پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک خوبصورت وادی جسے فیری میڈوز کا نام دیا گیا ہے واقعی میں پریوں کا مسکن ہے۔
قاتل حسین پہاڑ، نانگا پربت
دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں سے ایک مشہور و معروف پہاڑ نانگا پربت اس وادی کی وجہ شہرت ہے۔ نانگا پربت کے دامن میں واقع یہ وادی ایک آسٹرین سیاح ہرمین بھل نے دریافت کی تھی۔
ہرمین بھل دنیا کا پہلا کوہ پیما ہے جس نے نانگا پربت کو اکیلے سر کیا کیوں کہ اس کے ساتھ آنے والے باقی 31 کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے جنون میں جان سے ہاتھ کھو بیٹھے تھے۔
غیر ملکی سیاحوں کا ہجوم
بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے والے اس مقام کو فیری میڈوز کا نام بھی آسٹرین سیاح ہرمین بھل نے ہی دیا تھا۔ یورپ اور امریکا سے آنے والے سیاح اس مقام کو ضرور دیکھتے ہیں۔ چینی سیاحوں کا یہاں آنا دیامر باشا ڈیم کی وجہ سے بھی ہے کیوں کہ چلاس اور دیامر کے درمیان چائنیز کمپنی سی پیک کے تحت ایک ڈیم تعمیر کررہی ہے جہاں سے چین کے سیاح یہاں کا رخ بھی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی سیاحوں سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ فیری میڈوز کس قدر معروف مقام ہے۔ یہاں آنے کے لیے سیاح پورا سال تیاری کرتے ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کے منہ سے یہ سن کر بھی بیحد خوشی ہوتی ہے کی پاکستانی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ یہاں آکر بھی انہوں نے مقامی افراد اور پاکستانی سیاحوں کی تعریف کی اور کہا کہ یہاں کے لوگ بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں اور بہت اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔
ایڈوینچر
اسلام آباد سے 415 کلومیٹر کی مسافت پرکاغان اور ناران کی خوبصورت وادیوں سے گزرتے ہوئے بٹہ کنڈی اور پھر سرد ہواؤں کے محور بابو سر ٹاپ پہنچنے کے بعد چلاس اور اس کے بعد دیامر میں رائے کوٹ کا پل آتا ہے جو فیری میڈوز جانے والوں کے لیے آخری اسٹاپ ہے۔
رائے کوٹ پہنچنے کے بعد فیری میڈوز کے لیے ایک دشورگزار جیپ ٹریک شروع ہو جاتا ہے جو 2900 میٹر بلندی پر واقع ایک گاؤں تاتو تک جاتا ہے۔ جیپ پر سفر کا آغاز ہوتا ہے تواچانک انتہائی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے جو ان گنت موڑ سے گزرتے ہوئے گہرائی میں بہنے والے دریا رائے کوٹ سے خاصی بلندی پر آپ کے ساتھ تاتو تک چلتی رہتی ہے۔ یہ راستہ ایک گرم خشک سفر پر مشتمل ہے۔
لکڑی سے بنے ہوٹل اور دکانیں
فیری پوائنٹ پر پہنچتے ہی مختلف رنگوں کے لکڑی سے بنے ہوٹل اور ہٹس دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں کیمپنگ کے لیے بیشمار مقامات موجود ہیں اور یہاں کھانے پینے کا سامان بھی بآسانی مل جاتا ہے لیکن دام تھوڑے زیادہ اور کہیں اصل قیمت سے دوگنے بھی ہوتے ہیں۔
ہوٹل میں کھانا بوفے سسٹم کی طرح کا ہے لیکن یہ شہروں کے ہو ٹلز والا بو فے نہیں ہو تا۔ کھانے میں صرف دال ،چاول اور سبزی یا پھر چکن کڑاہی اور فرائیڈ رائس کا آپشن ہوتا ہے۔
ایک چھوٹی سی جھیل
فیری پوائنٹ سے چند قدم دوری پر واقع سرسبز میدان کے بیچ، چنار اور صنوبر کے درختوں کے سائے میں ایک چھوٹی سی جھیل خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جس میں نانگا پربت کا عکس دکھائی دیتا ہے اور یہ خاصا دلکش نظارہ ہوتا ہے۔
صبح کا حسین نظارہ
صبح سویرے جب ہوٹل کی کھڑکی سے دکھائی دینے والی نانگا پربت کی چوٹی پر سورج کی پہلی کرن اپنا جلوہ بکھیرتی ہے تو دل و دماغ میں تازگی کا ایک انوکھا احساس پیدا ہوتا ہے۔
جیسے جیسے سورج چڑھتا جاتا ہے ساتھ ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہونا شروع ہوتا جاتا ہے لیکن گرمی بڑھنے سے پہلے پہلے سیاح ارد گرد ہائیکنگ کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
بیال بیس کیمپ
فیری میڈوز سے مزید آگے 3 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد بیال کیمپ آتا ہے جس کو نانگا پربت بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے جو نانگا پربت پر جانے والے کوہ پیماؤں کے لیے پہلا پڑاؤ بھی ہے۔
بیس کیمپ پر جاتے ہوئے راستے میں ایک طویل گھنا جنگل عبور کرنا پڑتا ہے۔ مختلف ہٹس اور اسپاٹس بھی راستے میں نظر آتے ہیں جہاں موسم سرما کے یخ بستہ ایام میں تو گرم چائے پینے کا الگ ہی لطف ہے۔
بیس کیمپ پہنچ کر جمے ہوئے عظیم الشان گلیشیئر کو دیکھتے ہی عقل دنگ اور دیکھنے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
رات، الاؤ اور موسیقی
خواہ آپ کسی بھی ہوٹل میں رہائش پذیر ہوں وہاں آپ کی فرمائش پر رات کے وقت آگ کا الاؤ روشن کردیا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کی جانب سے موسیقی کا اہتمام بھی ہوجاتا ہے۔
شینا زبان میں دف کے ساتھ مقامی نغمے اس قدر مسحورکن ہوتے ہیں کہ آپ کو نہ ٹھنڈ کا احساس رہتا ہے اور نہ ہی دنیا کی پرواہ بس فیری میڈوز کے سحر میں جکڑے نانگا پربت کو تکتے ہوئے پوری رات بیت جاتی ہے اور پتا ہی نہیں چلتا۔