5 جولائی 1977: جنرل ضیاء نے مارشل لا لگانے کی کیا وجہ بیان کی؟

جمعہ 5 جولائی 2024
author image

ایس اے رحمان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

5 جولائی 1977 کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا جا چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی روز جنرل ضیاء الحق نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں مارشل لاء نافذ کرنے کی چند وجوہات کا ذکر کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ملک میں 90 روز کے اندر دوبارہ عام انتخابات کروا کر واپس لوٹ جانے کی یقین دہانی کرائی۔ مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ 90 دن آنے والے وقت میں 11 برس تک پھیل گئے۔

اپنے خطاب میں مارشل لاء کے نفاذ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے جنرل ضیاء نے کہا کہ مارچ میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ایک تحریک بھی چلائی گئی اور اس دوران ایسی قیاس آرائی بھی کی گئی کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اس موقع پر جنرل ضیاء نے کہا کہ کہ وہ تہہ دل سے اس بات کو مانتے ہیں کہ ملک کی بقاء صرف جمہوریت میں ہے۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ فوج نے اپوزیشن کی تحریک کے دوران ہونے والے ہنگاموں میں ملوث ہونے سے ہر ممکن گریز کیا اور سابق وزیر اعظم بھٹو پر ہمیشہ زور دیا کہ وہ اپوزیشن سے جلد از جلد معاملات طے کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج اقتدار پر قابض نہیں ہونا چاہتی اور مارشل لاء کا نفاذ صرف ملک کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا: “میں یہ بات بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں مجھے صرف اس خلا کو پُر کرنے کےلیے آنا پڑا ہے جو سیاست دانوں نے پیدا کیا ہے۔ میں نے یہ چیلنج اسلام کے ایک سپاہی کی حیثیت سے قبول کیا ہے۔” جنرل ضیاء نے اپنے خطاب کا اختتام پر کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسی کے نام پر قائم رہے گا۔ “اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد”، یہ اس خطاب کا آخری اسلامی ٹچ تھا جسے “اسلام کے سپاہی” نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا۔

مارشل لاء کا پس منظر

سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی بار 7 اور 10 مارچ 1977 کو بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لئے اپوزیشن کی نو جماعتوں نے جنوری 1977 میں ایک اتحاد قائم کیا جسے ‘پاکستان نیشنل الائنس’ (پی این اے) کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد میں نیشنل عوامی پارٹی نیپ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، خاکسار تحریک، پاکستان مسلم لیگ (قاسم گروپ) اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ مفتی محمود کو اس اتحاد کا سربراہ بنایا گیا۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اپوزیشن صرف 36 نشستیں حاصل کر سکی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس تحریک کے دوران حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا جس سے ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ حالات سنگین ہوتے جا رہے تھے۔ ہنگاموں میں ملوث لوگوں پر فوجی جوانوں نے گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر کارجون کے آغاز میں حکومت اور پی این اے نے مذاکرات کی حامی بھری۔ یہ مذاکرات ایک ماہ تک جاری رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبات میں رہنماؤں کی رہائی، پراپیگنڈا مہم کو ختم کرنے، زخمی افراد کی مالی معاونت سمیت ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ایک مہینے کے دوران ان مذاکرات میں تعطل بھی آیا مگر اس کے باوجود دونوں فریقین مسائل کے حل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ 4 جولائی 1977 کو ایک پریس کانفرنس میں وزیراعظم بھٹو نے کہا تھا کہ انہوں نے پی این اے کے تمام مطالبات مان لئے ہیں۔ مگر اگلے ہی روز ‘لائن کٹ گئی’ اور جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp