یکم جنوری 1970 کو صوابی میں پیدا ہونے والے کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کا چوبیسواں یوم شہادت آج عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے، دن کا آغاز مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کے ساتھ ہوا، علماء نے شہید کے درجات کی سربلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا۔
افواج پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے کیپٹن کرنل شیرخان شہید (نشان حیدر) کو ان کے چوبیس ویں یوم شہادت کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا۔
صوابی کے اس جوان نے 1992 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں شمولیت اختیار کی،1994 میں کیپٹن کرنل شیر خان نے پاک فوج کی مایہ ناز سندھ رجمنٹ کی یونٹ کو جوائن کیا جو کہ ان کی بہادری کی وجہ سے شیرِ حیدری کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
پڑھائی کا شعبہ ہو یا حرب و ضرب کا فلسفہ، کھیل کا میدان ہو یا فائرنگ کا مقابلہ، کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنی یونٹ کے لیے لا تعداد اعزازات حاصل کیے، کیپٹن کرنل شیر کی یونٹ کے صوبیدار قاسم بتاتے ہیں کہ کرنل شیر خان جسمانی مشقت کے عادی تھے، پی ٹی، ڈرل اور مختلف سرگرمیوں میں ان کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ یونٹ کی ہر سر گرمی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
17 اکتوبر1996ء کوآپ کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے، رینک بڑھنے کی خوشی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں کرنل شیر نے اپنی یونٹ کو ایک جی تھری رائفل کا ماڈل بھی پیش کیا۔ وہ ماڈل آج بھی اُنکی یونٹ میں محفوظ ہے۔
کیپٹین کرنل شیر خان شہید ایک سچے سپاہی کی طرح ہمیشہ آگے رہ کر لیڈر شپ کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس بہادر سپوت نے جنوری 1999ء میں خود کو لائن آف کنٹرول پر تعیناتی کے لئے پیش کیا۔
کیپٹن کرنل شیر خان کارگل کے محاذ پر این ایل آئی کی بہادر یونٹ کا حصہ بنے جو کہ ان کی جرأت کی وجہ سے حیدران پلٹن کے نام سے جانی جاتی ہے۔
کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان نے متعدد آپریشنز کی قیادت کی، کارگل جنگ کے دوران مشکل ترین چوٹیوں پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اس مجاہد نے تاریخ رقم کی، کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان نے متعدد آپریشنز کی قیادت کی اور دُشمن کے بہت سے حملوں کو پسپا کرکے انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔
5 جولائی 1999 کو کیپٹن کرنل شیر خان اوراُن کے 14 ساتھیوں کو دو کٹھن پوسٹوں کے درمیان موجود مزاحمتی ناکہ بندہ کو ختم کرنے کا مشن سو نپا گیا۔
اِس دوران کیپٹن کرنل شیر خان کو دشمن کی ایک اور مزاحمتی پوزیشن پوسٹ کی جانب بڑے حملے کی غرض سے آگے بڑھتی دُشمن کی سپاہ کی کثیر تعداد نظر آئی۔
سخت کٹھن حالات کے باوجود آپ نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ دُشمن پر بھرپور حملہ کر کے اُسے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔
مزید پڑھیں
اِس جرأت مندانہ معرکے میں آپ دشمن کے سنائپر فائر کی زد میں آگئے اور 5 جولائی 1999 کو شہادت کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔
پاک فوج کے اس جوان نے بھارتی فوج کو ایسا سبق سکھایا جو وہ کبھی نہیں بھلا سکے گی۔
کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنی ہمت، جرات، بہادری اور بہترین حکمت عملی سے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ دن کی روشنی میں دُشمن کی چوٹی (ٹائیگر ہل اور اردگرد کے ملحقہ پہاڑوں) پر بھرپور حملہ کیا۔
اس حملے کی ایسی دہشت تھی کہ ہندوستان کی 8 سکھ بٹالین کو اپنی دفاعی حکمت عملی کو مضبوط کرنے کے لئے اضافی نفری منگوانی پڑی۔
کرنل شیر خان اس چوٹی کے حصول کے لئے آخری دم تک لڑتے رہے حتیٰ کہ شہادت کے وقت بھی اُن کی اُنگلی بندوق کے ٹریگر پر تھی۔
کیپٹن کرنل شیر خان کی دلیری اور بہادری کا دشمن کی جانب سے بھی بھرپوراعتراف کیا گیا تھا، دُشمن کی طرف سے خط میں لکھا گیا کہ کیپٹن شیر خان نے جس طرح خود اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مقابلہ کیا اُنھیں اس بہادری پر اعلٰی اعزاز سے نوازا جانا چاہیے۔
اس موقع پرکرنل شیر خان شہید کے بھائی انور شیر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہاکہ کرنل شیرخان شہید نے اپنے آج کو ہمارے آنے والے کل پر قربان کردیا۔ یہ ہمارا پرچم جس کے تلے ہم کھڑے ہیں کرنل شیر خان شہید نے 18400 فٹ کی بلندی پر لگایا تھا۔
کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنی جان دے دی لیکن وطن کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔ یہی وہ بہادر ہیں جن کی ہمت، جرأت، وطن سے محبت اور بہادری کا برملا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔
مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے بھی کرنل شیر خان شہید کے لیے دعاؤں کا اہتمام کیا اور کہاکہ آزاد فضا میں سانس لینا ہمارے شہداء کی قربانیوں کے ہی مرہونِ منت ہے، شہداء کا لہو ہم سب پرقرض ہے۔
علماء کرام کا کہنا تھا کہ شہداء کی قربانیاں ہمیں اتحاد اور یگانگت کا درس دیتی ہیں، شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اورشہید کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
علماء کرام نے ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ جو قومیں اپنے شہداء کی تکریم نہیں کرتیں وہ ذلیل و رسوا ہو جاتی ہیں، شہداء کی قربانیاں ہم سب پر قرض ہیں۔ شہید کرنل شیر خان دھرتی کا بہادر بیٹا تھا جو ہمیشہ ہر دل میں زندہ رہے گا۔