بھارت میں انسانی گردوں کے کاروبار سے جڑی آن لائن نوسربازیاں عروج پر

بدھ 5 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت میں انسانی گردوں کی غیر قانونی خرید وفروخت سے جڑے کاروبار میں نیا اضافہ غربت سے تنگ آئے معصوم شہریوں کو اس غیر انسانی عمل پر اکسانے کی وہ نوسربازیاں ہیں، جو دراصل اس گھناؤنے کاروبار کی حوصلہ شکنی کے لیے تشکیل کردہ انسانی اعضا کے ’رضاکارانہ اور بعد از موت عطیہ‘ کے فروغ کے اداروں کے نام پر کی جارہی ہیں۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق، ایک حادثہ کا شکار ہوکر کام کاج سے فارغ سوریا نے فروری 2020 کی ایک صبح اپنا ایک گردہ بیچنے کا فیصلہ کیا۔ ملازمت سے محروم شوہر اور دو بچیوں کی کفالت کی ذمہ داری اور پانچ لاکھ روپے قرض کے بوجھ تلے سوریا ہی واحد کمانے والی تھی۔

اگرچہ وہ جانتی تھی کہ بھارت میں گردوں کی فروخت غیر قانونی ہے، لیکن اس نے اپنے اسمارٹ فون پر ’گردہ‘ اور ’بیچنا‘ جیسے الفاظ کیا ٹائپ کیے درجنوں مطلوبہ صفحات کھل گئے۔ ایک فیس بک پیج پر سوریا نے اپنا نمبر لکھتے ہوئے پوسٹ کیا کہ وہ اپنا ایک گردہ بیچنا چاہتی ہے۔

کچھ دنوں بعد سوریا کو ایک شخص کا فون آیا جس نے اپنی شناخت ڈاکٹر سینڈی کے نام سے کراتے ہوئے بتایا کہ دارالحکومت نئی دہلی کے قریب غازی آباد میں گٹروہ میڈیکل سینٹر اس کا گردہ 1 کروڑ روپے میں خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ سوریا کے لیے یہ سوچ ہی مطمئن کردینے والی تھی کہ اس رقم سے وہ کئی بار اپنے قرضوں کی ادائیگی اور اپنے خاندان کے کئی برسوں کے اخراجات ادا کر سکے۔

لیکن ڈاکٹر سینڈی کے مطابق سوریا کو سب سے پہلے بس ایک فارم پُر کرنا تھا اور ڈونر کارڈ کے لیے 8 ہزار روپے ادا کرنا تھے تاکہ اسے گردے کی فروخت کے عمل تک رسائی فراہم کی جاسکے۔

اس سے قبل کہ سوریا ڈاکٹر سینڈی کو رجسٹریشن کی مد میں یہ نام نہاد فیس ادا کرتی، اسے انسانی اعضا کے رضاکارانہ عطیہ اور پیوندکاری سے وابستہ موہان فاؤنڈیشن کا نمبر ملا، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہونے کے ناتے اعضاء کی فروخت کے بجائے ان کے عطیات کو فروغ دیتا ہے اور ان لوگوں کے لیے ڈونر کارڈ جاری کرتا ہے جو مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔

فاؤنڈیشن کے ہیلپ لائن آپریٹر نے اسے بتایا کہ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے لیے مروجہ ڈونر کارڈ کے حصول کے لیے کسی پیشگی ادائیگی کی کوئی شرط نہیں ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ آپ ایک گھوٹالے کا شکار ہو چکی ہیں۔‘

’’انتہائی نیکی کے ساتھ انتہائی شرارت‘‘

برطانیہ سے تربیت یافتہ ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر سنیل شراف نے بھارت واپسی پر گردے کی پیوندکاری کے منتظر مریضوں کی طویل فہرست دیکھ کر بعد از مرگ اعضاء کے عطیہ کی مہم شروع کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے 1997 میں موہان کی بنیاد رکھی۔

ہر سال تقریباً 10 لاکھ بھارتی شہریوں میں گردے کی دائمی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے تقریباً 2 لاکھ مریض اپنے گردوں کی ناکامی کے آخری مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے ہلاکت کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹر شراف کہتے ہیں کہ موہان کے ابتدائی دنوں میں، تمل ناڈو میں ایک سال میں 20 اعضاء عطیہ کیے جاتے تھے۔ آج کل 140 سے 180 سالانہ ہیں، اور ریاستی پروگرام دوسرے خطوں جیسے کیرالا، آندھرا پردیش، کرناٹک، راجستھان، مہاراشٹر اور گجرات تک پھیل چکا ہے۔

لیکن اس اہم مہم سے جڑی نو سر بازیاں بھی تیزی سے پھیل گئی ہیں، اور موہان فاؤنڈیشن کو جلد ہی پتا چلا کہ اس کا نام بھی جعلی دلالوں نے ممکنہ متاثرین سے رقم بٹورنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ سوریا جیسی کالیں اتنی کثرت سے آنے لگی ہیں کہ ڈاکٹر شراف اور ان کی ٹیم نے صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے انہیں جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔

اپریل 2020 میں ریکارڈ کی گئی ایک کال میں، ایک شخص نے موہان فاؤنڈیشن کو ڈاکٹر آرین کرن سے بات کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ ان کے گردے کی فروخت کا سودا ہوا ہے۔ ایک بار جب موہن آپریٹر نے اسے سمجھایا کہ ڈاکٹر کرن نہیں ہیں، تو یہ واضح ہو گیا کہ کال کرنیوالے شہری کے ساتھ نو سربازی کی واردات کرتے ہوئے پیسے اینٹھ لیے گئے ہیں۔

“رجسٹریشن کی لاگت 7,894 [روپے] ہے، جب یہ ہو جائے گا تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میرے پاس ضائع کرنے کا وقت نہیں ہے،” نام نہاد ڈاکٹر کرن نے موہان فاؤنڈیشن کے ذریعے حاصل کی گئی واٹس ایپ گفتگو میں کہا۔

“جناب اگر میں اپنا گردہ بیچتا ہوں تو میں ایک گردے کے ساتھ کتنے سال زندہ رہ سکوں گا؟” شکار دھوکہ باز سے پوچھتا ہے۔ “آپ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک زندگی ہے۔” دھوکہ باز نے جواب دیا۔

“دراصل اس وقت 7,894 روپے کا بندوبست کرنا مشکل ہے، میرے پاس اپنے بچوں کے لیے کھانا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔” اس بےچارگی پر دھوکہ باز کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔

ایک اور شخص نے فون کرتے ہوئے کہا کہ اس نے جعلی نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن کو  لیونگ ڈونر کارڈ کے لیے 10 ہزار ادا کیے تھے اور جعلی کارڈ ملنے کے بعد سے ان کا فاؤنڈیشن سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ان نوسربازیوں پر نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر شراف سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی خالی جگہوں کو پُر کرنا ہے۔

“اس پروگرام نے انتہائی برائی کے ساتھ انتہائی نیکی کی ہے۔ جب کوئی غیر دانستہ طور پر کسی کو عطیہ کرتا ہے تو یہ سب سے عمدہ اشارہ ہے، لیکن جب کوئی انسانوں کا استحصال کرتا ہے تو یہ سب سے برا ہوتا ہے۔‘‘

جب موہن فاؤنڈیشن نے سوریا کو شکایت درج کرنے کا مشورہ دیا تو ابتدا میں وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھیں اس ڈر سے کہ پولیس اس کی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن فاؤنڈیشن نے چنئی پولیس کو رپورٹ کرنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ شکایت کی حمایت کرکے راہ ہموار کی۔

سوریا کے مطابق انہوں نے اپنی اس کہانی کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ ان لوگوں کو بچایا جا سکے جو یہ غلطی کرنے والے ہیں۔ ’ہم اس کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب ہم اسے عام کریں۔‘

فیس بک مارکیٹ کی ایک مختلف قسم

سوشل میڈیا کی آمد اور وسیع پیمانے پر اور سستی انٹرنیٹ کی رسائی سے قبل گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت سڑکوں پر زبان سے ہوتی تھی لیکن اب سب بھارتی شہریوں کی دسترس میں انتہائی قابل قدر فیس بک پچھلی دہائی کے دوران اعضاء سمیت ہر نوعیت کی اشیاء کی خرید و فروخت کا بازار بن چکا ہے۔

اعضاء کی پیوند کاری کے لیے قوانین 2004 کے سونامی کے بعد اس وقت سامنے آئے جب برصغیر کے تباہ شدہ حصوں، بشمول سوریا کی آبائی ریاست تامل ناڈو میں 8 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ کوئی نوکری یا گھر نہ ہونے کے باعث، بہت سے زندہ بچ جانے والے غریبوں نے اپنے اعضاء بیچنے شروع کردیے تاکہ ضرورت سے زائد نقد رقم حاصل کی جا سکے۔ گردے کی منڈی اس قدر پھیل گئی کہ ولیواکم نامی اضلاع میں کو ’کڈنی واکم‘ کہا جانے لگا۔

تامل ناڈو 1994 میں انسانی اعضاء اور بافتوں کی پیوند کاری کے ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد مردہ جسم سے حاصل اعضاء کی پیوندکاری شروع کرنے والی پہلی ریاستوں میں سے ایک تھی۔ 2008 میں اس نے کیڈیور ٹرانسپلانٹ پروگرام  کے ذریعے ملک بھر میں بعد از مرگ عطیہ کو فروغ دینے کی راہ ہموار کی۔

اگرچہ اس نظام نے گردوں کی اصل فروخت کو مزید مشکل بنا دیا ہے، وہ دھوکہ باز جو لوگوں کو ایک جعلی ڈونر کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں بیچنا چاہتے ہیں، انٹرنیٹ تک سستی اور آسان رسائی کے طور پر پھل پھول رہے ہیں – ہندوستان کی ایک ارب سے زائد آبادی میں سے تقریباً نصف کو آن لائن رسائی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ فیس بک جیسا پلیٹ فارم کسی بھی چیز کی مارکیٹنگ کا ایک آسان ٹھکانا بن چکا ہے۔

2020 میں جب کووڈ نائنٹین کے وبائی مرض نے سر اٹھایا تو گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت نے ایک بار پھر سر اٹھایا، اپنی ملازمتیں کھونے یا پھر آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کے باعث بہت سے لوگوں نے اپنے اعضاء بیچنے کی کوشش کی۔

اس ضمن میں فیس بک پیجز اور گروپس نمودار ہوئے، جنہیں سوریا جیسے شہریوں نے فالو کیا۔ وہاں، ڈاکٹروں اور معروف ہسپتالوں کے نام کا جھوٹا سہارا لے کر جعلی دلالوں نے اعضاء خریدنے کی پیشکش اس شرط کے ساتھ شروع کی کہ گردے کے ممکنہ فروخت کنندگان ابتدائی رقم ادا کرنے کے بعد ان کا نام نہاد ’ڈونر کارڈ‘ حاصل کرلیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ فروخت واقعتاً ہوتی ہے یا نہیں۔ لیکن جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے نوسربازی کے اس گھٹیا آن لائن دھوکہ میں اپنے پیسے لٹائے ہیں، جس کے باعث وہ مزید قرضوں کی دلدل میں دھنستے گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp