پختون، میڈیا اور حجرہ

جمعہ 7 جولائی 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پختون معاشرہ اپنی سخت گیر روایات اور الگ تھلگ طرز زندگی کے سبب میڈیا سے ہمیشہ فاصلے پر رہا ہوگا، لیکن درحقیقت صورتحال اس سے مختلف ہے۔

یہ ’حجرہ‘ ہی تھا جو صدیوں سے پختون خطے میں مجموعی سماجی زندگی کا نہ صرف اہم ترین حصّہ رہا بلکہ اجتماعی دانش بھی اسی مرکز سے پھوٹتی رہی۔

’حجرے‘ کو حاصل مرکزی حیثیت ہی نے پختونوں کے مزاج میں با خبری اور خبر تک رسائی کا رنگ بھرا اور اسے ان کے مزاج اور زندگی کا حصہ بنایا۔ آگے چل کر یہی مزاج جدید دنیا اور میڈیا کے ارتقا سے ہم آہنگ ہونے لگا۔

ہماری نسل سے ذرا ہٹ کر ریڈیو نہ صرف حجرے کے سب سے اونچے طاق پر پہنچ گیا بلکہ اسی ریڈیو کے سامنے کثرت کے ساتھ لوگ (خصوصاً بزرگ ) بھی نظر آنے لگے اور یہی وہ وقت تھا جب خبریت کا مزاج رکھنے والی قوم کے سامنے خبر کا دائرہ پھیلنے لگا۔

پھر بی بی سی تو کیا مارک ٹیلی (بی بی سی کا نمائندہ) تک پختونوں کی نفسیاتی اورسماجی زندگی میں ایسے رچ بس گئے کہ ان کا ذکر ایک گہری شناسائی کے احساس کے ساتھ حُجروں سے کھیتوں تک ہونے لگا۔

حیرت انگیز طور پر عوامی سطح پر نا صرف خبر کی اہمیت اور اس تک رسائی کا شعور حاصل ہوا بلکہ خواندگی کی کم شرح ہونے کے باوجود خبر کی صداقت تک پہنچ اور تجزیے کو ایک کمال بھی حاصل ہوا جو ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ پختون قوم جبّلی طور پر ایک میڈیا پسند قوم ہے۔

 وقت کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا منظر پر اُبھرے تو پختون خطّے میں اسے حسب توقع ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

آپ اندازہ لگا لیں کہ پشاور سے انگریزی اخبار خیبر میل کا اجرا 1932 میں ہوا لیکن 80 کے عشرے تک اس اخبار کے سنجیدہ قارئین اس کے ساتھ جڑے رہے اسی طرح اردو اخبارات انجام، بانگ حرم اور کوہستان سمیت بہت سے اخباروں نے نہ صرف صحافت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا بلکہ کسی بھی مرحلے پر ان اخبارات نے کبھی قارئین کی تشنگی محسوس نہیں کی۔

یہی مزاج ٹیلی وژن کے حوالے سے بھی رہا یہ 70 اور 80 کا عشرہ  ہی تھا یعنی ٹیلی وژن کے ابتدائی زمانے میں ہی اسے نہ صرف عمومی مقبولیت مل گئی تھی بلکہ خبرنامہ سے پہلے تمام کام سمیٹ لیے جاتے تاکہ ایک یکسوئی اور انہماک کے ساتھ ایک ایک خبر کو بغور سنا اور دیکھا جائے ۔

گویا خبر کو دیکھنے کے نئے شوق نے قبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن میڈیا کے اس رومانس سے الگ ہوکر بھی ہم دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ وہی دیانتدار اور پڑھے لکھے اور حد درجہ محنتی لوگ تھے جنہوں نے پرنٹ میڈیا کو ابتدائی زمانے میں تھاما اور اپنے شب وروز کی محنت اور بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعتماد اور قبولیت کا بھاؤ فراہم کیا۔ شیخ ثنا اللہ سے لالہ امیر صدیقی اور قلندر مومند سے فارغ بخاری تک بہت سے نام ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پختون خطّے میں ہمیشہ میڈیا کے تمام ذرائع کو قبول کیا گیا۔ حتٰی کہ سوشل میڈیا کے جدید دور کو بھی، لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ میڈیا کی اس ابتدائی اُٹھان میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا تھا ان جیسے زمانہ حال میں بہت کم تعداد میں دستیاب ہیں۔

اب تو دن دھاڑے اور سر عام نہ صرف لین دین کا بازار گرم کیا جاتا ہے بلکہ اس مکروہ عمل کو بعض لوگ ایک آرٹ کے طور پر بھی پیش کرنے سے نہیں چونکتے لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ قارئین کی ایک کثیر تعداد خبر کی صداقت اور کذب بیانی میں فرق کو بخوبی جانتے ہیں۔

 جیسا کہ میں نے کہا کہ ’حُجرے ‘کی طاق پر ریڈیو کا بسیرا تھا اور خبر کی صداقت کو جانچنے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہ تھا تو تب بھی پختونوں کا مزاج فطری طور پر خبر کی تہہ تک پہنچنے اور تجزیے کی طاقتور قوت سے مالا مال تھا۔

اس لیے موجودہ دور میں تو یہ تصّور بھی ایک حماقت کے علاوہ کچھ نہیں کہ کذب بیانی یا بہتان طرازی سے رائے عامہ کو اپنی مرضی کی ڈگر پر ڈالا جا سکے گا گو کہ اس حوالے سے صورتحال کوئی اتنی آئیڈیل بھی نہیں لیکن دن بدن بیدار ہوتی رائے عامہ اور جدید میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا تک عام آدمی کی رسائی زرد صحافت کو اکھاڑنے میں حیرت انگیز پیش رفت کر رہی ہے۔

اطمینان کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام باالخصوص نوجوان طبقہ کسی طور دوسروں سے پیچھے نظر نہیں آتا۔ یہ وہ مثبت اشارے ہیں جو نہ صرف ’کاسہ لیس‘ صحافت کے بخیے ادھیڑتی اور سخت گرفت کرتے آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا کی طاقت اور تکنیک کا بھی بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو یقینا ایک خوش آئند اور امید افزا پیش رفت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp