سپریم کورٹ آف پاکستان کی دوسری خاتون جج جسٹس مسرت ہلالی نے بھی حلف اٹھالیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی کی حلف برداری کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مسرت ہلالی سے حلف لیا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کے بعد جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والی دوسری خاتون جج ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس مسرت ہلالی کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سفارش پر لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو جونیئر ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ میں لایا گیا تھا۔
جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کی تقرری کی سفارش جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی ہے۔ یکم اپریل کو جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور ہائیکورٹ کی قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا تھا، جس کے بعد وہ خیبرپختونخوا کی تاریخ میں اس عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون بن گئی تھیں۔
گزشتہ ماہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پشاور ہائیکورٹ میں بطور قائم مقام چیف جسٹس کی ذمہ داریاں ادا کرنے والی جسٹس مسرت ہلالی کی آئین کے آرٹیکل 175 اے (13) کے تحت بطور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعیناتی کی منظوری دی تھی۔
مزید پڑھیں
مسرت ہلالی جج بننے سے پہلے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن تھیں اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بھی فرنٹ لائن پر رہیں۔ آپ کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے قدرے پسماندہ علاقے پالئی سے ہے۔ آپ 8 اگست 1961 کو پیدا ہوئیں۔ قانون کی ڈگری خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی اور سال 1983 میں ڈسٹرکٹ بار کے ساتھ بطور وکیل انرول ہوئیں اور وکالت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ وہ سال 1988 میں ہائی کورٹ اور 2006 سپریم کورٹ میں انرول ہوئیں۔
مسرت ہلالی پہلی خاتون تھیں جو پشاور بار ایسوسی ایشن کی سیکریٹری منتخب ہوئیں اور اس عہدے پر 1988 سے 1989 تک براجمان رہیں۔ یہی نہیں وہ 1992 سے 1994 تک مسلسل 2 بار نائب صدر بھی رہیں۔ 1997 میں دوسری بار سیکریٹری منتخب ہوئیں جبکہ وہ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کی ایگزیکٹیو رکن منتخب ہونے والی بھی پہلی خاتون تھیں۔
مشرف دور میں عدلیہ آزادی کی تحریک میں بھی بہت سرگرم تھیں، بھگدڑ اور لاٹھی چارج کے دوران ان کے پاؤں میں فریکچر ہو گیا تھا لیکن وہ ان حالات میں بھی عدلیہ اور وکلا تحریک کے لیے فکر مند نظر آتی تھیں۔
مسرت ہلالی بطور وکیل بھی مختلف سرکاری اہم عہدوں پر رہیں۔ سال 2001 میں بطور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا تعینات ہوئیں وہ یہ عہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون تھیں۔ انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی حیثیت سے 2004 تک کام کیا۔
انہوں نے چئیرپرسن انوائرمینٹل پروٹیکش ٹربیونل کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، اس عہدے پر بھی وہ پہلی خاتون تھیں۔ وہ صوبائی محتسب بھی رہیں اور پھر 26 مارچ 2013 کو پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں جس کے ایک سال بعد ہی وہ پشاور ہائی کورٹ کی مستقل جج بن گئی تھیں۔