پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے 3 ارب ڈالر کے معاہدے کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے قبل پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ملاقاتوں کو ’سیاسی خودمختاری چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مالی خودمختاری پہلے ہی سپرد کر دی گئی تھی اور اب سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے عہدیداروں سے ملاقاتوں سے ’سیاسی خود مختاری کا بھی خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کے ان ریمارکس کا حوالہ ہفتہ کے روز سینیٹ آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں دیا گیا۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب اس سے ایک روز قبل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عہدیداروں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظامات کے لیے ان کی حمایت کی یقین دہانی کے لیے ملاقاتیں کیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کی جانب سے یہ ملاقاتیں 12 جولائی کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس سے قبل ہو رہی ہیں جس میں پاکستان کے لیے 3 بلین ڈالر کے انتظامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
لگتا ہے ملک میں ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی واپسی ہو گئی ہے: رضا ربانی
عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے عہدیداروں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ‘ایسٹ انڈیا کمپنی ‘ کی واپسی ہو گئی ہے کہ قابل ذکر افراد کو کمپنی کی پالیسیوں کی حمایت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
انہوں نے سوال کیاکہ’جو سیاسی جماعتیں ملک میں نجکاری اور سرکاری ملازمین کی چھانٹی کی حمایت کرتی ہیں ان کا کیا حشر ہوگا؟
مزید پڑھیں
اس سے قبل ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے اپنے تبصرہ میں کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ آئی ایم ایف ٹیم کی ملاقاتیں کچھ غیر معمولی ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کسی بھی پروگرام سے پہلے، آئی ایم ایف کے حکام عام طور پر اسٹیک ہولڈرز، جیسے چیمبرزآف کامرس، بینکوں اور مزدور یونینوں کے نمائندوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ مجھے ایسی (سیاسی) ملاقاتیں کی کوئی مثال یاد نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف ) کی ٹیم کی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ آئندہ انتخابات میں سامنے آنے والی حکومت میں سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں سے آگاہ رہنا چاہتا ہے ۔
ادھر عالمی مالیاتی ادارہ حالیہ مہینوں میں یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی خاص پارٹی کو دوسری پر ترجیح نہیں دیتا اور جو بھی پارٹی اگلی حکومت بنائے گی اس کے ساتھ بات چیت کرے گا۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں سے عالمی قرض دہندہ کی ٹیم کی ملاقاتوں کے سلسلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
ادھر متعدد تجزیہ کاروں نے خبردار بھی کیا ہے کہ پاکستان میں غیر یقینی سیاسی ماحول عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو پٹڑی سے اتار بھی سکتا ہے۔