سیلاب، ڈیم اور کیچڑ

بدھ 12 جولائی 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہر سال یہی ہوتا ہے۔ ہر برس پانی اپنے قہر کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ سیلاب کے تند ریلے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ مال مویشی، انسان اور فصلیں۔ چند دن تک ایسے واویلا رہتا ہے جیسے گیلی مٹی پر قدموں کی نشان۔

چند دن گزرتے ہیں، بین کرنے والے چپ ہو جاتے ہیں، نمناک آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں، گھر بار لٹانے والے پھر تنکا تنکا جمع کرنا شروع کرتے ہیں، مٹی کی دیواریں بنتی ہیں، مال مویشی جمع ہوتا ہے۔ یہ تیاری زندگی کے لیے نہیں، اگلے سیلاب کی ہوتی ہے، کیونکہ اب بچ جانے والوں نے اگلے سال پانی کا لقمہ بننا ہے۔ اب زندہ رہ جانے والوں نے اگلے سال اجل کا سامنا کرنا ہے۔

زندگی کا دائرہ اس ملک میں اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ہم کبھی بھارت پر پانی چھوڑنے کا جھٹ الزام لگا دیتے ہیں۔ کبھی سابقہ حکمرانوں کو کوس کوس کر ہلکان ہو جاتے ہیں، کبھی پانی میں ڈوب کر مرنے والوں کو شہادت کے درجے پر فائز سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ہمارا یہ چلن آج کا نہیں دہائیوں کا ہے۔ سیلاب کا یہ پہیہ ہر سال چلتا ہے اور ہر سال ہم جانے کتنی زندگیاں پانی کے دیوتا کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ تاسف کا پرچار ہوتا ہے مگر تدبیر کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔

ہم ڈیم کیوں نہیں بناتے، اس اثاثے کو محفوظ کیوں نہیں کرتے، اس دولت ربی کو ضائع کیوں ہونے دیتے ہیں؟ اس کے جواب میں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں، کوئی وجہ نہیں کہ ایک ملک جہاں ویسے پانی کا کال پڑا رہتا ہے، جہاں فصلیں سوکھ جاتی ہیں، جہاں زمین بنجر ہو جاتی ہے، وہاں اس قیمتی شے کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہ کیا جائے۔

تربیلا اور منگلا کے بعد ہمارے ڈیموں کی تاریخ خاموش ہے۔ یا پھر گفتگو کالا باغ ڈیم تک محدود رہتی ہے جس میں صوبے ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیتے ہیں۔  ہر حکمران اس ڈیم کو بنانے کا عزم کرتا ہے،اور پھر ہر کوئی اس سے اجتناب برت لیتا ہے۔ سیاسی مصلحت قومی مفاد پر حاوی ہو جاتی ہے۔ زمین پیاسی رہتی ہے یا پھر اس کی ساری شادابیاں پانی میں ڈبو دی جاتی ہیں۔

کبھی ملکی مفاد کی آڑ میں اپنی حرص کو پوشیدہ کرنے والوں سے پوچھنا تو چاہیے کہ اس قومی فرض سے روگردانی کیوں کی گئی؟ اس اہم ذمہ داری کو کیوں بھلا دیا گیا؟

ایسا نہیں ہے کہ ڈیم نہیں بنے۔ ڈیم بنے، بسااوقات تو اس قدر زیادہ بنے کہ پانی تو چھوڑیں، ڈیم تک سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ یاد ہی ہو گا آپ کو وہ زمانہ جب مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت اور خیبر پختونخوا میں خان صاحب کی جماعت براجمان تھی۔ اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہم تین سو پچاس ڈیم بنائیں گے۔ جن لوگوں نے تربیلا اور منگلا ڈیم دیکھے ہیں، وہ سوچ میں پڑ گئے کہ یا اللہ ! اتنے سے خیبر پختونخوا میں اتنے بڑے تین سو پچاس ڈیم کیسے بنیں گے۔

اس وقت تبدیلی کا لڑکپن تھا اس لیے کوئی معترض نہیں ہوا۔ تین سو پچاس ڈیم کا نام آتے ہی سب نعرے لگاتے، تالیاں بجاتے اور کپتان کے گیت گاتے تھے۔ جیسے جیسے حکومت کے دن بیتتے گئے ڈیم رقبہ کم ہوتا گیا۔ وہ ڈیم جس نے ملک کو سیراب کرنا تھا وہ محلے کے ہینڈ پمپ اور واٹر کولروں  میں تبدیل ہو گئے۔

المیہ یہ نہیں کہ قوم سے جھوٹ بولا گیا، المیہ تو یہ ہے کہ ان ہینڈپمپوں اور واٹرکولروں کے افتتاح کی تصاویر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ حکومت کے آخری سال بتایا گیا کہ یہی ہینڈ پمپ ڈیم ہیں ۔ یہی تمہارا مقدر ہیں، یہی سوکھنے والے نلکے تمہارا مقدر ہیں۔

ڈیم سے یاد آیا کہ ایک منصف اعظم کے دل میں بھی اس ارمان نے کروٹ لی تھی کہ چلو! چلو!! ڈیم بنائیں۔ سارے ملک میں چندہ مہم شروع ہو گئی۔ جنرل باجوہ نے اس نیک کام میں ہاتھ بٹایا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کاٹ کر ڈیم فنڈ کو مالا مال کر دیا۔ اس زمانے میں جس نے اپنا کیس ختم کروانا ہوتا تھا ڈیم فنڈ میں چند لاکھ دے کر معاملہ رفع دفع کروا لیتا تھا۔

بینکوں کے باہر آج بھی اس فنڈ کے اکاونٹ نمبرز کے بوسیدہ بینر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ اب کوئی منصف اعلیٰ سے سوال پوچھے کہ وہ ڈیم بنا؟ تو جواب یہی ملے گا کہ ہمارا فرض فنڈ جمع کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا، آگے خدا جانے۔ ڈیم نہیں بنا بلکہ اس کی مد میں وصول کردہ رقم بھی تنازعے کا شکار ہو گئی۔ جس نے قوم کو پانی سے بچانا تھا اب اپنے ماضی پر پانی پانی ہو رہا ہے۔ اس عرق ندامت سے قوم کو چند پھٹے ہوئے بینروں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

بات سیلاب سے شروع ہوئی تھی ڈیم فول تک جا پہنچی۔ کہنے کو بس یہ مقصد تھا کہ سیلاب تباہی لاتا ہے، سب کچھ برباد کر دیتا ہے۔ اس کلیے کے اعتبار سے دو ہزار اٹھارہ میں بھی ایک سیلاب آیا تھا۔ جس میں تبدیلی کے تند ریلے تھے، جس کے تھپیڑوں سے سماجی، سیاسی اور اخلاقی نقصان بہت ہوا۔ جس کے رستے کی دیوار جس نے بننے کی کوشش کی وہ خس و خاشاک ہو گیا۔ آج کہیں تبدیلی کا پانی  اتر چکا ہے، کہیں دیدوں کا پانی مر چکا ہے۔

چار سالہ  تباہی کے اثرات ہر جگہ ہیں۔ یہ سیلاب اپنے پیچھے نفرت کی مٹی چھوڑ گیا، تقسیم کا کیچڑ چھوڑ گیا، گالی گلوچ کے گٹر کھول گیا۔ اس سیلاب سے بہت نقصان ہوا۔ قوم کا، عوام کا، ادارے کا، جمہوریت کا، سالمیت کا۔ اب فکر صرف یہ  ہے کہ ہم اب اس سیاسی سیلاب کی تباہ کاریوں کے نقصانات لوگوں کو گنوا رہے ہیں، اگلے سال پھر یہ سیلاب نہ آ جاوے۔ کیونکہ اس طرح کے سیلابوں کو روکنے کے لیے جمہوریت کے بند مضبوط کرنا ہوں گے۔ ورنہ یاد رکھیں !کچی مٹی سے بند نہیں بنتا صرف کیچڑ ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp