اسرائیل کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف وزری کے بیان کے بعد جاری بحث نے جو سیاسی منظر نامہ تشکیل دیا ہے اس کا خارجی پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کے اعتراض کا جواب ترکی بہ ترکی دیا ہے کہ فلسطینیوں پر جاری مظالم اسرائیل کی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ایسے میں اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے معاملے میں بیان بے معنی ہے۔
جب کہ اس صورتحال کا داخلی پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کے اس بیان کو عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے حق میں آواز قرار دیا جا رہا ہے۔
ان دو انتہاؤں سے پرے ایک سنجیدہ بحث پاکستان اور اسرائیل میں تعلقات کی نوعیت کے ضمن میں بھی جاری ہے، اس حوالے سے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر جو گرد اڑائی جا رہی ہے اس میں پاکستانی قیادت کے خفیہ اسرائیلی دورہ کے بھی باز گزشت ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کو دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور ریکارڈ کے مطابق پاکستانی قیادت اور وزرائے خارجہ نے کبھی اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔
مزید پڑھیں
ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ سے ماضی میں حکومتی اہلکاروں کے اسرائیل جانے اور اس ضمن میں پاکستان کی پالیسی سے متعلق سوال کیا گیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستانی قیادت نے کبھی اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق اسرائیل کے دورے پر پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے ہے۔ کوئی بھی شخص جو پاکستانی پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
ترجمان کے مطابق اس حوالے سے اسرائیل اس بات پر مایوس ہے کہ پاکستان کے چوتھے جائزے کے دوران اس کی تمام سفارشات کو نوٹ کیا گیا۔ علاوہ ازیں ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو فلسطینیوں پر مظالم کرنے والے ملک اسرائیل کی نصیحت کی ضرورت نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان میں اسرائیل کا ذکر اول تو اسی وجہ سے شروع ہوا جب اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے پاکستان کو انسانی حقوق کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کے ذکر کا دوسرا سبب بنے والی وہ خبریں تھیں جن کے مطابق سندھ کے شہر میر پور خاص سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نہ صرف اسرائیل جا چکے ہیں بلکہ وہاں ملازمت کے دوران پاکستان پیسے بھی بھیجتے رہے ہیں۔ ان خبروں کے مطابق اسرائیل پلٹ افراد میں سے کئی اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جب کہ اس وقت بھی کئی پاکستانی شہری اسرائیل میں مقیم ہیں۔