ممنون صاحب سے میری یاد اللہ اس زمانے میں ہوئی جب انہیں سندھ کا گورنر بنایا گیا۔ میں ایک روز اپنا موٹر سائیکل پھٹپھٹاتا ہوا گورنر ہاؤس پہنچ گیا۔ گفتگو شروع ہوئی اور محمد احمد بھائی نے تصویریں بنانے کے لیے کیمرہ سیدھا کیا تو ممنون صاحب نے کہا کہ ٹھہریے!، یہ ایک عجیب سی بات تھی۔ احمد بھائی نے کیمرہ نیچے کیا تو ممنون صاحب نے دراز سے کنگھا نکالا اور مسکرا کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
‘ تصویر بننے سے پہلے اپنی زلفیں تو سنوار لیجیے!’۔ ‘اس شخص کے سینے میں تو ایک دھڑکتا ہوا دل ہے’۔ ’گورنری کنگھے‘ سے بال سنوارتے ہوئے میں نے سوچا۔
ممنون صاحب کی گورنری زیادہ عرصے تک نہ چل سکی، پرویز مشرف نے ایک شام اچانک میاں نواز شریف کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا تو ان کے عہدے کی میعاد خود بخود ختم ہو گئی لیکن اسی شام انہیں پیغام ملا کہ یہ ایوان خالی کرنے کی ضرورت نہیں، آپ اپنے منصب پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ ممنون صاحب نے یہ پیغام ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سنا، سیڑھیاں اتر کر گورنر سیکریٹریٹ میں داخل ہوئے اور عملے سے الوداعی ملاقات کرنے لگے۔ اسی دوران بیگم ممنون صاحبہ کالونی میں چلی گئیں اور بڑے چھوٹے تمام عملے کے بیوی بچوں سے ملنے کے بعد واپسی کے لیے تیار ہوگئیں۔
گورنر شپ سے فراغت کے بعد جن دنوں ہائی جیکنگ کیس چل رہا تھا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا، اس موقع پر بھی انہیں وفاقی وزارت پیش کی گئی لیکن انہوں نے وزارت پر جیل کو فوقیت دی۔
ممنون صاحب صدرِ مملکت کیسے بن گئے؟، اس سوال میں اچنبھے کا پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں جب مختلف مناصب پر لوگوں کے انتخاب کی بات ہوتی تو وہ ہمیشہ اپنی جگہ کسی دوسرے کا نام پیش کر دیتے۔ ایک بار سینیٹ کی نشست خالی ہوئی تووہ خواجہ قطب الدین کا نام پیش کر کے پیچھے ہوگئے۔ اسی طرح ایک بار پھر سینیٹر بننے کا موقع آیا تو انہوں نے مشاہد اللہ خان کا نام پیش کر دیا۔ میاں نواز شریف کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد جب منصب صدارت کے لیے نامزدگی کا وقت آیا تو اس بار انہیں اجلاس میں نہیں بلایا گیا یوں ان کا نام فائنل ہو گیا۔ وہ اجلاس میں ہوتے تو ممکن تھا کہ اس بار بھی وہ اپنے کسی دوسرے ساتھی کو منتخب کرا دیتے۔
ممنون صاحب کے زمانے میں ایوان صدر قومی تاریخ کا منفرد ایوان رہا۔ پاکستان کے سب سے بڑے دفتر میں کام کرنے والے اہل کار، افسر اور کارکنان بتاتے ہیں کہ اس ایوان کی 3 یا 4 دہائیوں کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اس میں کام کرنے والوں نے خود کو ایک خاندان کا حصہ محسوس کیا اور اس خاندان کے سربراہ خودصدر مملکت تھے۔ رشتے کا یہ احساس ان لوگوں کے اہل خانہ اور بچوں تک پھیلا ہوا تھا۔
ہمارے سیاسی ماحول میں بدگمانی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ صدارت کے لیے ممنون صاحب کے انتخاب کو کسی اور نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔یہ درست ہے ممنون صاحب کے زمانے میں ایوان صدر ماضی کی طرح سازشوں کا گڑھ نہیں بنا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے فیصلے ہمیشہ اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق کیے جس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ان مثالوں میں ایک ایوان میں پارلیمنٹیرینز کی حاضری کا معاملہ بھی تھا جسے ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا تھا اور کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ کون سا پارلیمنٹیرین سال میں کتنے دن ایوان میں حاضر ہوتا ہے۔ یہ معاملہ طویل عرصے سے زیر بحث رہا لیکن اس پر فیصلہ کوئی نہیں کر پا رہا تھا۔ ممنون صاحب کے سامنے جب یہ معاملہ آیا تو انھوں نے حکومت کی خواہش کے برعکس فیصلہ دیا۔ یوں دہائیوں سے راز میں رہنے والا یہ معاملہ اب عوام کی دسترس میں آچکا ہے اور وہ اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
یہ ممنون حسین ہی کا زمانہ تھا جب صدر مملکت کا صوابدیدی بجٹ ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول پر خرچ ہونے کے بجائے قومی مقاصد پر خرچ کیا جانے لگا اس کی مثال کراچی میں انجمن ترقی اردو کی عمارت کی تعمیر ہے جس کا خواب گزشتہ پون صدی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا تھا۔
اسی طرح شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں ٹیلی ویژن لیبارٹری کا قیام جس کے لیے حکومت سندھ سے کئی دہائیوں سے وعدوں کے باوجود امداد نہیں مل رہی تھی، میری درخواست پر ممنون حسین نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے اس کے لیے رقم مہیا کر دی، آج جامعہ کراچی کے بچے الیکٹرانک میڈیا کی عملی تربیت اس لیبارٹری میں حاصل کر تے ہیں جس کا کریڈٹ صرف ممنون حسین کو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ ممنون حسین کی قیادت میں ایوان صدر ہی تھا جس میں سب سے پہلے اس پر عمل درآمد ہوا۔ میری درخواست پر وہ سربراہان مملکت کی سطح کے بیرونی وفود سے مذاکرات اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں اردو تقریروں کا سلسلہ بہت پہلے ہی شروع کر چکے تھے۔
اسی طرح یہ بھی ان ہی کے دور میں ہوا کہ ایوان صدر کے مختلف ہال اور اہم کمرے قومی مشاہیر سے موسوم کردیے گئے۔اس سے پہلے کسی کمرے کو ’پنک روم‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا اورکسی کو ’بلیو روم‘ اور کسی کو کسی اور نام سے۔
یہ بھی ممنون حسین صاحب ہی کا اٹھایا ہوا قدم تھا کہ وفاقی حکومت کے فنڈ سے معذور اور مستحق فن کاروں کے علاج اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں باقاعدگی پیدا ہوئی اور اس فنڈ کو ایک مستقل صورت دی گئی ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بڑے پیمانے پر عطیات جمع کر کے اس فنڈ کو مزید بہتر بنایا۔
یہ کارنامہ بھی ممنون حسین صاحب ہی کے زمانے میں ہوا کہ ایوان صدر کے اخراجات میں ایک چوتھائی کے قریب بچت شروع ہوئی اور بجٹ میں واضح کمی کی گئی، یہاں تک کہ اپنی ذات پر اٹھنے والے اخراجات کی بھی انھوں نے کڑی نگرانی کی۔
ایک بار میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس طرح کی خبریں اور تصویریں شائع ہوئیں کہ ان کا لباس ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔ میں نے ان کی توجہ اس جانب دلائی تو ہنس کر کہنے لگے کہ لوگوں سے کہہ دو کہ وہ 74 برس کا بڈھا ہے، اس کے کپڑے ایسے ہی رہیں گے۔
نائیجیریا سے واپسی پر استنبول میں قیام کے دوران ان کے سیکریٹری احمد فاروق انہیں ایک بڑے مال میں لے گئے جہاں سیل چل رہی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے چند اچھے سوٹ خرید لیے جائیں۔ احمد فاروق کی خواہش پر وہ مال میں چلے تو گئے لیکن کپڑے خریدنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ سرکاری خزانے سے وہ اپنی تراش خراش کو بہتر بنانے کے لیے بیرون ملک سے خریداری کریں۔
زیادہ اصرار پر یہ کہہ کر انہوں نے بات ختم کر دی کہ گھر میں کچھ کپڑا پڑا ہے، میں اسی سے ایک 2 نئے سوٹ سلوا لوں گا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ذاتی زندگی میں ان کی یہی سادگی اورقومی خزانے میں کفایت شعاری مالک حقیقی کی بارگاہ میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہوگی۔