چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ماں، بچے کی صحت، ضرورتوں کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مسلم ممالک ایران، بنگلہ دیش آبادی کنٹرول کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔
لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور وزارت بہبود آبادی کے اشتراک سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ججوں کی کانفرنس میں شرکت پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ججوں کو نئے خیالات اور معاشرتی ضروریات سے آگاہ ہونا چاہیے۔
کانفرنس میں نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت نہیں کی۔
جمعہ کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے زیر اہتمام نیشنل پاپولییش کنٹرول کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فرد کی خوشی خاندان کی خوشی پر منحصر ہے۔ اسلام خاندان کے رشتے کومضبوط بناتا ہے ۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی، آئین میں دیے گئے حقوق کا مطلب ہے عوام کے مسائل کو حل کرنا اور انہیں خوش حال کرنا ہے، اس لیے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں اور بچے کو تحفظ فراہم کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کا معاملہ محض ریاست پر نہیں چھوڑا جا سکتا ریاست کے اور بھی بے شمار کام ہوتے ہیں، اس کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں عوام کو اس پروگرام میں شامل کرنا ہو گا۔
قرآن کہتا ہے کہ ضروت مندوں کی مدد کرو، اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ ایک بہترین خاندانی نظام واضح کرتا ہے، جس میں ایک فرد ایک پورے خاندان کی کفالت کرتا ہے اور خاندان ایک گروہ بناتا ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے میں اسلامی اقدار کو زندہ کرنا ہوگا، ہمیں صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہنا بلکہ اپنے خاندان کی بہتری کے لیے، اس کی تعلیم اور سماجی زندگی کی بہتری کے لیے انفرادی اور اجتماعی مدد فراہم کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے تعلیم اور شعور کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی نسل کو اسکل بیسٹ ( فنی بنیادوں) تعلیم دینا ہوگی تاکہ نسل نو کو بااختیار بنایا جا سکے۔
1947 میں جب پاکستان آزاد ہوا تو ہندوستان کی طرف سے ہمیں کوئی سرمایہ فراہم نہیں کیا گیا، ہم اس وقت موجود تو نہ تھے لیکن ہم تاریخ میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ پورا ملک پرائیوٹ فنڈز پر چلایا گیا، عوام نے چندہ کر کے اس ملک کو چلایا اور ہم نے یہ بھی پڑھا کہ پاکستان کے قیام کے 4 سال بعد پاکستان نے جرمنی کو قرض دیا۔
میں نے کہیں یہ بھی پڑھا کہ 1971 میں پاکستان نے چین کو بھی قرض فراہم کیا۔ اس ملک میں یہ صیلاحیت موجود ہے کہ ہم چاہییں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عوام اور ہم جیسے لوگ سامنے آ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔
ججوں کو نئے خیالات اور معاشرتی ضروریات سے متعارف ہونا چاہیے: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بطور جج صحیح اور غلط کو نہیں دیکھتا بلکہ ہماری ترجیح بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے سے زیادہ آبادی کو کار آمد بنانے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے فنی تعلیم اور تربیت کو عام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جوانی میں فنی تعلیم و تربیت کے بہت سے مراکز ہوتے تھے اب نہیں ہوتے۔ ہمیں ایران اور بنگلہ دیش کی مثالوں سے سیکھنا چاہیے۔انہوں نے آبادی کم کی اور اب انہوں نے پابندیاں ہٹا دی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے خطاب کا آغاز قرآن پاک کی آیت سے کیا اور کہا کہ یہ آیت خاندان کی خوشی سے متعلق ہے۔ فرد کی خوشی بھی اہم ہے لیکن خاندان کی خوشی زیادہ اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان بنا ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، عام لوگوں نے پاکستان کو پیسے دیے، انہوں نے کہا پہلے سادگی کو پسند کیا جاتا تھا اب نمود و نمائش کو پسند کیا جاتا ہے۔ ہمیں پہلا اقدام اٹھاتے ہوئے سادگی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے، یہ وہ سادہ اقدامات ہیں جو کرنے چاہیں، انہوں کہا کہ دو روزہ کانفرنس میں تجاویز دی جائیں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام چیزوں کو ریاست پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمیں کمیونٹی کو شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے خاندانی اقدار کو پھر سے جگانے پر زور دیا اور کہا کہ تعلیم اور روزگار میں خاندان کے افراد ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک نوکری کے لیے ہزار درخواستیں ہوتی ہیں۔ 70ء کی دہائی میں لیبر ایکسپورٹ کا تجربہ اچھا تھا۔ ہم اپنی ہنر مند افرادی قوت کو باہر بھجوا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی تحسین کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے پر پورے معاشرے کو ساتھ ملانا ہوگا، اسلام بہتر خاندان کی بات کرتا ہے، بہتر پیشہ ورانہ تعلیم سے معاشرہ ٹھیک ہوگا، پاکستان کی عوام کو سامنے آکر ریاست کو مسائل کا حل بتانا ہوگا، یہ وہ سادہ اقدامات ہیں جو کرنے چاہییں۔