افغانستان میں طالبان کی حکومت نے تمام اداروں سے انگریزی زبان کا خاتمہ کر دیا ہے اور ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ آئندہ سرکاری زبان ’پشتو‘ ہو گی۔
افغان طالبان کی حکومت کے امیرالمومنین نے اس حوالے سے تمام اداروں کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں جس کے بعد کوئی بھی ’ڈاکومنٹ‘ پشتو زبان میں لکھا اور جاری کیا جائے گا۔
افغانستان بھر کے تمام اداروں سے انگریزی زبان کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تمام سرکاری اور عوامی اداروں میں انگلش مخففات و اصطلاحات کے استعمال پر بھی عائد کردی گئی ہے۔
اردو کا فیصلہ کب ہوگا ؟ pic.twitter.com/27tXQdySZ2
— Taha طٰہٰ (@taahaa_) July 15, 2023
دوسری جانب پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے فیصلے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 2015 میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ستمبر 2015 میں قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا مگر آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا تھا اور حکم دیا گیا تھا کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 251 کو فوری طور پر نافذ کرے۔
1973 کے آئین کے آرٹیکل 251 میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ملک میں اردو بطور سرکاری زبان نافذ ہو گی۔ جبکہ صوبائی زبانوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 3 ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان اردو میں ترجمہ کر لیا جائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا تھا کہ آرٹیکل 251 کی صورت میں اگر کسی بھی شہری کو نقصان پہنچے تو اسے متعلقہ ادارے یا اس کے اہلکار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
چیف جسٹس بھی سخت ریمارکس دے چکے، عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟
رواں سال کے آغاز میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہ کرنے پر ذمہ داران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ اب ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں گے، اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں لاہور ہائیکورٹ کا ایک ماہ میں اردو زبان کے نفاذ کا حکم
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے 13 فروری 2023 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک ماہ میں تمام اداروں میں اردو زبان کے نفاذ کا حکم دیا تھا مگر اِن احکامات پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس رضا قریشی نے کیس کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 251 اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل کیا جائے۔