مصرکے بازاروں میں پھیری کر کے سبزیاں فروخت کرنے والی ایک 89 سالہ معمر خاتون حجہ عزیزہ نے عمر کے اس حصّے میں بھی محنت مزدوری کر کے رزقِ حلال کمانے کی مثال قائم کی ہے اور ان لوگوں کو پیغام دیا ہے جو زمانے کی تلخیوں سے ہمت ہار کر مایوس ہو جاتے ہیں اور بھیک مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
مصر کے بازاروں میں سڑکوں پر گھومتی، پھرتی 89 سالہ حجہ عزیزہ کوئی بھکاری نہیں بلکہ ہمت و حوصلے کا پیکر حجہ عزیزہ اپنی عمر کے اس حصّے میں بھی ‘واٹر کریس’ جسے کابو بھی کہتے ہیں (یہ پانی میں اُگنے والی ایک خود رو سبزی ہے) اور کچھ سبزیاں بیچ کر روزی ، روٹی کماتی اور پیٹ کی آگ بجھاتی ہے، لوگ اس کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ کوئی مدد کرنے کی کوشش بھی کرے تو وہ اسے صاف انکار کر دیتی ہیں۔
حجہ عزیزہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا ابھی چل بھی نہیں پا رہا تھا کہ میرے خاوند کا انتقال ہو گیا، میرا خاوند ہی میرا واحد کفیل اور سہارا تھا، اس کی موت سے ایک جانب اندر سے ٹوٹ گئی لیکن پھر معصوم بیٹا آنکھوں کے سامنے آتا تو ہمت پھر سے جواں ہو جاتی، کہتی ہیں زندگی اور بے بسی کے درمیان ہی میں نے معصوم بیٹے کی کفالت کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں اپنے اور بچے کی کفالت کے لیے دن رات محنت کرنے لگی لیکن میری بدقسمتی نے یہاں بھی پلٹا کھایا اور برسوں کی محنت کے باوجود میرا بیٹا بھی انتقال کر گیا اور یوں میں مکمل تنہا اور بے سہارا ہو گئی۔
حجہ عزیزہ کہتی ہیں میں 65 سال سے مصر کے بازاروں میں سڑکوں پر گھوم کر سبزی فروخت کر کے اپنا چولہا جلائے رکھی ہوں، حجہ عزیزہ کہتی ہیں کہ وہ صبح فجر کی نماز کے لیے بیدار ہوتی ہیں تو پھر اس کے بعد سبزی کی فروخت کے لیے وہ دن کے اس تھکا دینے والے سفر کا آغاز صبح 5 بجے سے شروع کرتی ہیں۔
’ کہتی ہیں میں صبح 5 بجے سبزی فروش کے پاس جاتی ہوں اور اتنی ہی سبزی لیتی ہوں جتنی میں اٹھا کر بازار میں پھیری کر سکوں اور یہی سلسلہ 65 سال سے جاری رکھے ہوئے ہوں، اب تو عمر بھی ڈھل گئی ہے۔
سوشل میڈیا کے صارفین نے مقبول ہونے والی حجہ عزیزہ کے اس عزم اور حوصلے کو بہت سراہا اور اسے مایوس لوگوں کے لیے ایک مثال قرار دیا۔ صارفین لکھتے ہیں کہ اللہ خاتون کو سلامت رکھے اس کی ہمت واقعی قابل داد ہے۔ ایک صارف لکھتا ہے کہ ہم نے محسوس کیا کہ اللہ ہمیں کئی طریقوں سے نوازاتا ہے لیکن ہم سمجھنے میں ناکام ہیں۔
حجہ عزیزہ ایک ایسی مثال ہیں جو محنت مزدوری کرکے اور آزادانہ زندگی گزارتی ہیں جب کہ ہم عدم برداشت اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اللہ کو یاد کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں دکھانا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے بارے میں بہتر جانتا ہے اور اس کی مہربانی اور حکمت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ تنہا کر کے ہمت بھی دیتا ہے، سہارا بھی دیتا ہے اور سب سے بڑا مدد گار بھی بن جاتا ہے۔