بلا اور بغاوت

بدھ 19 جولائی 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمران خان ایک سے زیادہ مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں ان کی مرضی اور منشا شامل تھی۔ نہ صرف یہ سب ان کی مرضی سے ہوا بلکہ 9 مئی کا دن ان کی توقعات پر پورا بھی اترا۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا جائے گا تو لوگ کہاں جائیں گے؟ مفہوم اس بات کا یہ تھا کہ ظاہر ہے اگر عمران خان کو گرفتار کیا جائے گا تو کور کمانڈر ہاؤس ہی جلایا جائے گا، کھیر تو نہیں پکائی جائے گی۔

عمران خان کے روز بدلتے بیانات، توجیہات اور تاویلات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کا دن ادارے کے ذہن میں ایک سانحے کی شکل میں ثبت ہوکے رہ گیا ہے۔9 مئی کا دن عوام کے دکھ کا سبب بن چکا ہے۔9 مئی کے روز ہونے والے واقعات ہر طبقہ فکر کے لیے قابل مذمت بن چکے ہیں۔ اب عمران خان کے اعترافات جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں، اور شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں، حتیٰ کہ تخریب کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔

جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ ریاست سے بغاوت تھی۔ ارادہ یہی تھا کہ شہر شہر آگ لگا کر، شہیدوں کی یادگاریں نذر آتش کر کے، عوام کو جوش دلا کر ہر نقش کہن کو مٹا دیا جائے۔ دنیا کو بتا دیا جائے کہ اس ملک میں پاکستان نہیں، خان کا قانون چلے گا۔ اب کے بعد نظریہ بھی خان کا ہو گا، آئین بھی اسی نام سے موسوم ہوگا، سکہ بھی خان ہی کا چلے گا اور حکم بھی خان کا قائم ہوگا۔ یہی 9 مئی کا آئیڈیا تھا، یہی سازش تھی اور یہی منصوبہ بندی تھی۔ اسی کو ریاست سے بغاوت کہتے ہیں۔

دنیا کے متعدد ممالک میں ریاست سے بغاوت کی کوششیں ہوئی ہیں۔ بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ بغاوت ناکام ہو جائے تو اس کی سزا ملتی ہے۔ یہ طریقہ دنیا کی ہر ریاست کا ہے۔ آپ دنیا کے کسی ملک میں، کسی خطے میں ہوں، اگر آپ ریاست کے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں، لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تشدد پر لوگوں کو ابھارتے ہیں تو اس کی سزا ملتی ہے۔

اگر لوگ آپ کے ایماء پر ریاست کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اس کا جرمانہ بھرنا پڑتا ہے۔ پھر تاریخ بتاتی ہے کہ جیل بھی مقدر بنتی ہے اور پھانسی کا پھندہ بھی گلے پڑتا ہے۔ دنیا کی تمام ریاستوں کا باغیوں سے نپٹنے کا یہی طریقہ ہے۔

 لیکن عمران خان کی بغاوت اس سے مختلف ہے۔ یہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والی بغاوتوں سے زیادہ قابل نفرین ہے۔ اس کے بعض ایسے پہلو بھی ہیں جو پہلے کبھی کسی ملک میں سامنے نہیں آئے۔ اس میں نفرت کو اوج ثریا تک پہنچانے کی کوشش کی گئی اور ہر دائرے، ہر قانون کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والی بغاوتوں اورعمران خان کی بغاوت میں بنیادی فرق ایک ہی تھا۔

جی ایچ کیو پر حملہ غلط بات تھی، کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ مستحسن عمل نہیں تھا۔ شہدا کی یادگاروں کی تذلیل دنیا کی کسی بغاوت میں کبھی نہیں ہوئی۔ کسی قوم کے افراد نے کبھی ان شہدا کی توہین نہیں کی۔

جن ہیروز کے ترانے بچپن سے لوگوں کی زبان پر ہوں، جن کی شجاعت کے کارنامے پوری قوم کے لیے قابل فخر ہوں، جن کا اس ہنگام سے کوئی تعلق ہو نہ واسطہ ہو، ان کی یادگاروں کی توہین اس بغاوت کا سب سے بڑا جرم ہے۔ یہ جرم معاف کرنے کو نہ عوام تیار ہیں نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی ادارہ۔

مکرر عرض ہے کہ بغاوت کی سزا ملتی ہے۔ بغاوت کے اعتراف پر اس سزا میں کمی نہیں، اضافہ ہوتا ہے۔ عمران خان سرعام لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ منصوبہ کیا تھا، ان کے جنونی اور وحشی کارکن کہاں کہاں حملے کا ارادہ رکھتے  تھے، کس کس کو نشانہ بنانا مقصود تھا، کون کون سی تنصیبات کو آگ لگانے کا تہیہ کیا ہوا تھا، کس کس شہید کی یادگار کو مٹی میں ملانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا، عمران خان کے تازہ ترین انٹرویوز میں ان سب باتوں کا اعتراف موجود ہے۔

اس اعتراف کے بعد ریاست کے پاس سزا دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ تماشا یہ ہے کہ خان صاحب کو اپنے کسی بیان سے آج تک شرمنگی محسوس ہوئی نہ انہیں اپنے کیے پر خجالت کا کوئی احساس ہے۔ اور نہ ہی انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ان کے اقدامات سے ملک پر کیا گزری، معیشت کو کتنی تباہی کا سامنا کرنا پڑا، سیاست کن رکیک لمحوں سے گزرتی رہی، مملکت کس طرح لرزہ براندام رہی۔

اب الیکشن کا موسم آنے والا ہے۔ کوئی دن ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی،  نگران حکومت انتخابات کا انصرام کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کا بلا کہاں کھڑا ہوگا؟ کیا یہ نشستوں کے رنز اگلے گا یا ہتھی سے ہی اکھڑ جائے گا؟

کیا تحریک انصاف کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوں گی یا انتخابات میں سونامی آئے گا؟ یا سونامی کی تباہی کے آثار نظر آئیں گے؟ ووٹر جوق در جوق بلے کے نشان پر مہر لگائیں گے یا یہ نشان ووٹر لسٹ سے ہی غائب ہو جائے گا؟ اس کا فیصلہ اب ہونا نہیں بلکہ یہ نوشتہ دیوار ہے۔

توشہ خانہ کیس اپنے حتمی مراحل سے گزر رہا ہے، الزام سنگین ہے اور ثبوت اس سے  بھی زیادہ سنگین۔

بغاوت کی سزا اگر باغیوں کو ملے گی تو تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بھی اس ہزیمت سے گزرے گا۔ اسے بھی ریاست کے خلاف ناکام بغاوت کا تاوان دینا پڑے گا، نفرت کی سیاست کا بھگتان بھرنا ہو گا، بلا جو کبھی انقلاب کا نشان بنا تھا، آنے والے انتخابات میں عبرت کا نشان ثابت ہوگا۔

یہ میرا تجزیہ نہیں بلکہ تاریخ کا فیصلہ ہوگا جو ریاست کے ہر باغی کے گلے میں لٹکا دیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp