یوکرین اور روس کی جنگ کے دوران جہاں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہوئیں، وہیں جانوروں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوئے، اس دوران ایک ایسے شخص کی کہانی سامنے آئی جو جنگ کے دوران چمگادڑوں کو محفوظ کرنے میں جت گیا۔
اینٹون ولینشنکو اب تک 4 ہزار سے زائد چمگادڑوں کو گولہ باری اور سردی سے محفوظ کر چکا ہے۔
اینٹون ولاشینکو پچھلے 20 برسوں سے یوکرین میں جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں نایاب نسل کی چمگادڑیں ہیں جن کی دم نہیں ہوتی، جنگ کے دوران ان کی نسل کے مکمل خاتمے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے انہیں بچانے کا فیصلہ کیا۔
عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اینٹون ولاشینکو نے بتایاکہ روسی فوجی جتھے زبردستی تحفظ مراکز کو بند کر رہے تھے، اور مجھے معلوم تھا کہ چمگادڑیں ان سینٹرز کے بغیر مر جائیں گی کیونکہ یوکرینی نسل کی زیادہ تر چمگادڑیں غیر مقامی ہیں اور سردیوں میں یہ چمگادڑیں عمارتوں اور مراکز کے اندر ہائبرنیٹ ہو جاتی ہیں۔
اینٹون نے بتایا کہ چمگادڑوں کی اس نسل کو بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ان چمگادڑوں کو اپنے پاس موجود چمگادڑوں کے لیے بنائے گئے ری ہیب سینٹر میں رکھا جائے یا پھر انہیں اسی طرح سرد ترین علاقے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک گھنٹے کے اندر وہ مرجائیں گی۔
اینٹون کے مطابق وہ اور ان کی ٹیم چمگادروں کو بچانے کے مشن پر نکلی۔ ’خرکیو‘ شہر سے 4 ہزار کے قریب چمگادڑوں کو بچا کر اپنے ری ہیب سینٹر میں لایا گیا، ان چمگادڑوں کو مصنوعی ماحول فراہم کیا گیا جہاں انہیں سخت سردی میں ہائبرنیٹ کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ان چمگادڑوں کو فریج کے اندر مصنوعی سینٹرز میں رکھا گیا جہاں وہ زیادہ وقت سوئی رہیں اور بچے پیدا کرتی رہیں۔
اینتٹون نے بتایا کہ اس دوران خرکیو شہر میں رہنا ان کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں تھا، ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جان ہر وقت خطرے میں ہی رہتی تھی۔ پورے شہر میں روسی افواج کی بمباری اور گولیوں کے تبادلے کی آوازیں آتی رہتی تھیں، قریب کی عمارتوں سے دھواں اڑتا صاف دکھائی دیتا تھا لیکن انہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا۔
مہینوں سے جاری لڑائی کے بعد آخر کار یوکرینی فورسز نے روسی فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا، اور سخت ترین سردی کا موسم بھی ٹل گیا جس کے بعد ان چمگادڑوں کو دوبارہ جنگلوں کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ یہ لمحہ اینٹون ولاشینکو اور اسکی ٹیم کے لیے انتہائی خوشی کا باعث تھا کہ چمگادڑیں دوبارہ اپنے اپنے علاقوں کی جانب اڑ رہی تھیں۔