آئی ایم ایف شرائط: کیا زراعت بھی ٹیکس نیٹ میں آنے والی ہے؟

جمعہ 21 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر قرض کی منظوری دیتے ہوئے دوسرے جائزے کے لیے زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کا پلان طلب کرلیا ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس زرعی شعبے سے ٹیکس ریونیو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے لہذا زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کر کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جائے۔

وی نیوز نے معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے استفسار کیا کہ کیا حکومت کے لیے زراعت پر ٹیکس عائد کرنا ممکن ہے اور اگر ہاں تو اس کا نفاذ کب تک ممکن ہوگا۔ اس پر تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ یہ قانون ہی صحیح نہیں ہے کہ تنخواہ سے آمدن حاصل کرنے والا ٹیکس دے گا لیکن زراعت سے منسلک افراد نہیں دیں گے۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کو ہر صورت بڑھانا ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زرعی آلات یا کھادوں پر ٹیکس کو بڑھایا جائے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کا نفاذ سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل ہو گا اور حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور یہ آئندہ اسمبلی ہی کر سکتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا حصہ رہا ہے اور جی ڈی پی میں 25 فیصد حصہ زراعت کا ہے تاہم ملک بھر میں زرعی آمدن پر ٹیکس انتہائی کم وصول کیا جاتا ہے۔

ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ زرعی شعبے سے حاصل آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ نئی حکومت کرے گی اور اس ضمن میں عالمی بینک سے معاونت حاصل کی جائے گی۔

زراعت کے شعبے سے کتنا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے؟

پاکستان میں زرعی زمینوں کے مالکان بڑے رقبے عموماً ٹھیکے پر دے دیتے ہیں جن سے انہیں کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے تاہم زرعی آمدن پر ٹیکس عائد نہ ہونے کے باعث انہیں کچھ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس زرعی زمین پر فصل کاشت کرنے والے زمین داروں سے حکومت ٹریکٹرز، زرعی کھادوں اور ادویات پر 18 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس وصول کرتی یے جب کہ بجلی پر ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔

چاروں صوبائی حکومتوں نے گزشتہ مالی سال میں مجموعی طور پر 4687 ارب روپے کے محصولات جمع کیے جب میں ٹیکس ریونیو 612 ارب روپے تھا جب کہ زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی وصولی کی شرح محض صفر اعشاریہ 3فیصد تھی۔ صوبائی حکومتوں نے 2.4 ارب روپے بطور زرعی ٹیکس وصول کیے جب کہ وفاقی حکومت نے اپنے تحت آنے والے علاقوں سے کوئی زرعی ٹیکس وصول ہی نہیں کیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140A کے مطابق اگر ملک بھر میں زرعی انکم ٹیکس نافذ کیا جائے اور صوبے یہ ٹیکس وصول کریں تو وفاق کا مالیاتی خسارہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔

صوبے کتنا زرعی ٹیکس وصول کر رہے ہیں؟

صوبہ پنجاب میں سرداروں اور نوابوں نے کئی ایکڑ زمین ٹھیکے پر دی ہوئی ہے جس سے انہیں کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے تاہم اس آمدن پر ٹیکس نہیں دیا جاتا۔

پنجاب حکومت نے پچھلے مالی سال کے دوران صرف 83 کروڑ روپے بطور زرعی ٹیکس وصول کیے جو کہ کل وصول کیے گئے ٹیکس کا محض صفر اعشاریہ 1 فیصد تھا۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کا حصول کل ٹیکس ریونیو کا اوسطاً ایک فیصد بھی نہیں رہا، بلوچستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران صرف 50 لاکھ روپے زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس وصول ہوا ہے۔

زرعی آمدن پر ٹیکس کو ہر صورت بڑھانا ہوگا

وی نیوز نے ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب سے استفسار کیا کہ کیا آئی ایم ایف کے کہنے پر زراعت پر ٹیکس عائد ہونے والا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ  آئی ایم ایف نے زراعت کے شعبے سے ٹیکس وصولی کو بڑھانے کی بات اس لیے کی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ زراعت کا ہے تاہم زرعی آمدن سے حاصل ہونے والا ٹیکس انتہائی کم ہے اس لیے عالمی ادارے کا خیال ہے کہ زرعی آمدن پر ٹیکس ہر صورت بڑھانا ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زرعی آلات یا کھادوں پر ٹیکس بڑھادیا جائے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ زرعی آمدن سے ٹیکس وصولی کسی بھی حکومت کے لیے مشکل چیلنج ہو گا کیوں کہ زراعت سے کروڑوں روپے کمانے والے افراد سے لاکھوں روپے کا ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وصولی سے ملک کے معاشی حالات سدھارنے میں مدد ملے گی۔

آمدن جو بھی ہو اس پر ٹیکس ہونا چاہیے

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئئر صحافی و معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے کہا کہ آمدن جو بھی ہو اس پر ٹیکس ہونا چاہیے، یہ قانون ہی صحیح نہیں ہے کہ تنخواہ سے آمدن حاصل کرنے والا ٹیکس دے گا لیکن زرعی آمدن والا ٹیکس نہیں دے گا۔

مہتاب حیدر نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ ملازمت کر کے ٹیکس پہلے دیتا ہے اور خود پر بعد میں خرچ کرتا ہے لیکن دوسری جانب زمینداروں کو دیکھا جائے تو ان کے مزے ہیں کیوں کہ وہ کوئی ٹیکس ہی نہیں دیتے اس لیے میرے خیال میں زرعی آمدن پر زیادہ ٹیکس وصول کرنا چاہیے۔

زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے

مہتاب حیدر نے کہا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی اور موجودہ اسمبلی تو نہیں البتہ آئندہ آنے والی اسمبلی زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس کی وصولی کے لیے صوبوں اور وفاق کو مل کر پلان بنانا ہوگا اور بہتر یہ ہوگا کہ ٹیکس ایف بی آر وصول کرے اور پھر اسے صوبوں کو منتقل کر دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی ٹیکس کا نفاذ سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل ہو گا کیوں کہ ان میں زمینداروں کی نمائندگی موجود ہے اس لیے یہ کام کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp