لاہور کا علاقہ ماڈل ٹاؤن جو پہلے ہی ن لیگ کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز ہے وہیں اب دوسری جماعتیں بھی پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں بنانے کو ترجیح دے رہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ سیاسی رہنما اپنی رہائش بھی ماڈل ٹاؤن میں اختیار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس وقت ن لیگ کا مرکزی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن کے ایچ بلاک میں واقع ہے جبکہ پیپلزپارٹی اور استحکام پارٹی کے سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن سی بلاک میں واقع ہیں۔ یہ سب جماعتیں ایک دوسرے سے چند سو میٹر کی دوری پر ہیں لیکن ان کا منشور اور نظریہ اپنا اپنا ہے۔
ن لیگ خدمت کو ووٹ دو کا نظریہ رکھتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی روٹی کپٹرا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے اور استحکام پارٹی عوام کو ریلیف دینے کا منشور رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے اب ماڈل ٹاؤن کو سیاست کا گڑھ بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں یہاں سے ہی کوئی سیاسی جماعت عوامی اقتدار لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
بلاول ہاؤس بھی ماڈل ٹاؤن میں تعمیر ہوگا
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جن کا لاہور میں پہلے سے ہی بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن میں موجود ہے لیکن سابق صدر آصف علی زرداری نے بحریہ ٹاؤن بلاول ہاؤس سے نکلنے کا سوچا ہے اور ان کا اب نیا ٹھکانہ ماڈل ٹاؤن میں ہوگا جسں کے لیے آصف علی زرداری نے قریباً 6 کنال پر مشتمل ایک گھر خریدا ہے جسے پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ کیونکہ بحریہ ٹاؤن والا گھر ورکرز اور رہنماؤں کو خاصا دور پڑتا تھا، کوئی تقریب اگر بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن میں ہوتی تھی تو سب سے زیادہ تکلیف پیپلزپارٹی کے جیالوں کو ہوتی تھیں اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ماڈل ٹاؤن بلاول ہاؤس تعمیر کروایا جا رہا ہے کہ جیالوں اور رہنماوں کو آنے جانے میں آسانی رہے اور پیپلزپارٹی مختلف تقریبات کا انعقاد با آسانی کر سکے۔
ریلیاں ،احتجاجی مظاہرے بھی ہوں تو ورکرز رہنما نزدیک ہونے کے ناطے آرام سے آسکیں۔ بلاول ہاؤس پیپلزپارٹی کے ماڈل ٹاؤن مرکزی سیکریٹریٹ کے قریب ہوگا تاکہ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری جب لاہور آئیں تو وہ یہاں پر پارٹی اجلاس بھی کرسکیں گے اور میٹگنز بھی اسی گھر میں کی جا سکیں گی۔
اس سے پہلے پیپلزپارٹی گلبرگ میں بلاول ہاؤس بنانے کا سوچ رہی تھی اور اس کے لیے جگہ بھی خرید لی گی تھی لیکن پارٹی کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ بلاول ہاؤس پارٹی سیکریٹریٹ کے ساتھ ہو تو زیادہ اچھا ہوگا۔
بلاول ہاؤس ماڈل ٹاؤن میں ہیلی پیڈ بھی بنے گا؟
پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن بلاول ہاؤس میں ہیلی پیڈ بنایا گیا تھا جب آصف علی زرادری صدر تھے تو وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر بلاول ہاؤس آتے جاتے تھے کیونکہ انہیں سیکورٹی تھریٹ تھے، اب ماڈل ٹاؤن والے گھر میں اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ ایک ہیلی پیڈ یہاں پر بھی بنایا جائے تاکہ ہیلی کاپٹر کی لیڈنگ ہوسکے لیکن ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
وزیراعظم شہبازشریف،جہانگیرترین اور بلاول ہاؤس
ماڈل ٹاؤن میں جہاں تینوں جماعتوں کے سیکریٹریٹ ہیں وہیں اب پارٹی سیکریٹریٹ کے ساتھ ساتھ پارٹی رہنماؤں کے گھر بھی ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ شروع سے ہی ماڈل ٹاون میں رہتے ہیں، ان کا گھر بھی پارٹی سیکریٹریٹ سے چند سو میٹر کی دوری پر ہے۔
جہانگیر ترین بھی ماڈل ٹاؤن والے گھر میں شفٹ ہو گئے ہیں اور بلاول بھٹو ہاؤس بھی چند مہینوں میں تعمیر ہو جائے گا۔
ماڈل ٹاؤن سے زمان پارک اور پی ٹی آئی کا سیکرٹریٹ کتنا دور ہے؟
ن لیگ، پیپلزپارٹی اور استحکام پارٹی کے سیکریٹریٹ تو ایک دوسرے سے معمولی دوری پر ہیں لیکن پاکستان تحریک کا مرکزی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاون سے قریباً ساڑھے 6 کلومیٹر دور جیل روڑ پر واقع ہے اور زمان پارک ماڈل ٹاؤن سے قریبا ساڑھے 9 کلومیٹر دوری پر ہے۔
قریباً 10 کلومیٹر کے دائرے میں 4 سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو عوام اور پاکستان کی خوشحالی کا علم بلند کرتی ہیں۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف یہ تینوں جماعتیں پنجاب اور وفاق میں اقتدار میں رہ چکی ہیں، اس وقت بھی ان جماعتوں کا یہی نعرہ تھا کہ پاکستان خوشحال تو عوام خوشحال اب بھی ان کا یہ ہی نعرہ ہے۔
استحکام پارٹی میں بھی وہی لوگ موجود ہیں جو ان تینوں جماعتوں میں رہ کر اقتدار کے مزے لیتے رہے ہیں اور اب وہ عوامی خدمت کے جذبے سے سر شار ہو کر ووٹر کو اپنا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔