ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی مون سون بارشوں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے سے جاری ہے جس کے دوران مختلف حادثات میں اب تک 6 افراد جان گنوا چکے ہیں جب کہ 13 افرد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
صوبے کے شمالی میں مشرقی اضلاع میں کہیں موسلادھار تو کہیں بونداباندی کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ڈائریکٹر پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پی ڈی ایم اے فیصل پانیزئی نے آباد حالیہ مون سون بارشوں کے دوران آواران، قلعہ سیف اللہ،ژوب اور نصیر میں اب تک 6 افراد جاں بحق جب کہ 13 افراد زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
فیصل پانیزئی کے مطابق بارشوں کے سبب پیدا ہونے والی سیلابی صورت سے نمٹنے کے لیے تمام اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو الرٹ جاری کر دیا ہے۔
دوسری جانب لورالائی، شیرانی، ژوب ،ہرنائی، دکی، کوہلو، بارکھان، سبی، نصیر آباد، خضدار، واشک، مستونگ، قلعہ عبداللہ اور مسلم باغ حالیہ بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں جب کہ بارشوں اور سیلاب کے باعث سیلابی ریلا بولان کے علاقے پنجرہ پل پر قومی شاہراہ کو بہا لے گیا جس کے باعث پل پر آمدورفت بند ہوجانے سے آنے اور جانے والا ٹریفک معطل ہے۔
طوفانی بارشوں کے سبب مختلف اضلاع کے پہاڑی علاقوں کے ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوگئی ہے۔ سنجاوی اور صحبت پور میں موسلا دھار بارشوں کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ بارشوں سے بجلی کی متعدد لائنیں ٹرپ کر گئیں جب کہ بسیمہ کے نواحی علاقوں میں سیلابی ریلوں نے متعدد مکانوں فصلات کو نقصان پہنچایا ہے۔ واشک میں سیلابی ریلوں کے باعث انگور کے باغات تباہ ہو گئے ہیں۔ لسبیلہ کے نواحی علاقے پورالی ندی میں طغیانی کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی جس کے بعد علاقہ مکینوں نے نکل مکانی کرنی شروع کردی ہے
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں شدید بارشوں سے ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کی صورت میں تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکریٹری کی صوبائی سیکریٹرز کو اضلاع کے دورے کرنے اور کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز کو فیلڈ میں حاضر رہنے اور عوام کو مکمل ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
بلوچستان میں بارشوں کا پانی کیوں ضائع ہوتا ہے؟
گزشتہ برس بلوچستان میں مون سون بارشوں کے طوفانی اسپیل نے تباہی کی ایک نئی داستان رقم کر دی تھی۔ سیلاب اور بارشوں نے 300 سے زائد زندگیوں کے چراغ گل کر دیے تھے جب کہ سینکڑوں مکانات اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلی فصلیں اور باغات کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔ تاہم اس وقت حکومت کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ صوبے میں ڈیمز کی کمی کی وجہ سے ہزاروں کیوبک فٹ پانی جہاں ضائع ہوا وہیں اس پانی نے سیلاب کی صورت اختیار کر کے شدید نقصان پہنچایا تاہم ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود صوبے میں نئے ڈیمز کی تعمیر تاحال شروع نہیں ہوسکی ہے۔
ہر سال بارشوں کا پانی بڑے پیمانے پر ضائع ہو جاتا ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہو پاتی۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہر ارضیات دین محمد نے بتایا کہ ہر سال صوبے میں 11 ملین کیوبک فٹ بارش برستی ہے جس میں سے صرف ایک ملین کیوبک فٹ پانی ڈیمز کے ذریعے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اسی صورت حال میں دس ملین کیوبک فٹ پانی نہ صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ کھیت و کھلیان کو بھی تباہ کر دیتے بعد ازاں یہ سیلابی پانی سمندر میں گرتا ہے جس سے سمندر کی سطح بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جو آئندہ آنے والے وقت میں ایک بڑے حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔
دین محمد کے مطابق بلوچستان میں پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیمز کی ناقص تعمیر کی وجہ سے پانی مکمل طور پر ذخیرہ نہیں ہو پاتا اس کے علاوہ ذخیرہ ہونے والا پانی مالدار میں اس قدر کم ہوتا ہے کہ یہ بخارات کی صورت میں اڑ جاتا ہے جس سے زمین یوں ہی سوکھی اور بنجر رہ جاتی ہے۔ اگر حکومت نے پانی ذخیرہ کرنے سے متعلق کو بہتر منصوبہ سازی نہ کی تو مستقبل قریب میں صوبے کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دین محمد کہتے ہیں کہ زمین میں موجود پانی کو بڑے پیمانے پر نکالا جارہا ہے جب کہ زمین میں پانی اس مقدار سے جذب نہیں ہو رہا جس سے کوئٹہ کی زمین دستی جارہی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو ایسے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں چھوٹے ڈیمز یا تالاب بنائے جائیں تاکہ زمین میں زیادہ سے زیادہ پانی جذب ہو سکے۔