پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے 21 جولائی کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’پی آئی اے کو سب سیاسی جماعتوں نے ضرورت سے زیادہ سرکاری ملازمین سے بھر کر رکھ دیا ہے، اگر پی آئی کی بہتری کے لیے کام نہ کیا گیا تو یہ 1 سے 2 سال تک مکمل طور پر بند ہو جائے گی‘۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر جنرل سول ایسویشن اتھارٹی حسن بیگ نے بتایا کہ سنہ 2016 میں ایک قانون بنا تھا جس کے تحت پی آئی اے کو پرائیویٹ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے کو پہلی فرصت میں پرائیویٹائز کردیا جائے تا کہ اس کی کارکردگی بہتر ہو اور سول ایسویشن کا جو نیویارک میں ریسٹورنٹ اور پولٹری کا بزنس ہے اس کی بجائے پی آئی اے کی بہتری پر دھیان دیا جائے۔
حکومت کو تمام اسٹیٹ کمپنیوں کو پرائیویٹ کر دینا چاہیے کیوں کہ حکومت کا کام صرف انہیں ریگولیٹ کرنا ہے اس لیے حکومت اپنا کام کرے اور ٹیکسز وصول کرے۔
حسن بیگ نے بتایا کہ پی آئی کے پاس تقریبا 55 جہاز ہیں جن میں سے 25 کے قریب جہاز فنکشنل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی کے ملازمین کی تعداد 13 سے 14 ہزار تک ہے جو کہ ضرورت سے بہت زیادہ ہے اور جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پی آئی کے مستقبل کا انحصار صرف پرائیویٹائزیشن پر ہے اور اسی صورت میں یہ چلتی رہے گی لیکن اگر یہ گورنمنٹ سیکٹر میں رہی تو آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی کیوں کہ پاکستان کے معاشسی حالات اور پاکستان پر جتنا قرضہ ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ حکومت مستقل سبسڈی دے پائی گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی آئی کو چلتا اور ترقی کرتے دیکھنا ہے تو پھر اسے پرائیویٹائز کرنا ضروری ہے چاہے وہ پرائیوٹائزیشن 100 فی صد کی جائے یا 50 فی صد مگر یہ کرنی ضرور پڑے گی کیوں کہ مینیجمنٹ بدلنے میں ہی پی آئی اے کی بھلائی ہے۔
پی آئی اے کے سابق جنرل مینیجر پبلک ریلیشنز بشیر احمد چوہدری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی کی بہتری کا واحد حل ایمانداری سے کام کرنے میں ہی ہے اسے پرائیویٹ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
بشیر احمد نے سابق ایئر مارشل ارشد ملک کے حوالے سے کہا کہ ’وہ خود تو آئے اور اپنے ساتھ 14 بندے مزید لے کر آئے جو مختلف عہدوں پر فائز ہوئے اور وہ تمام پروفیشنل بھی نہیں تھے۔ ان سے کسی قسم کا سوال نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جب لوگ ہی پروفیشنل نہیں ہوں گے تو کوئی بھی ادارہ ہو وہ تباہی کی طرف ہی جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مینیجمنٹ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ورنہ پی آئی اے ختم ہوتی چلی جائے گی اور اگر اسے پرائیویٹائز کریں گے تو اس کی پہچان ختم ہو جائے گی۔
بشیر احمد نے کہ پی آئی اے کے جو اپنے ملازمین ہیں انہیں اگے آنے کا موقع دیا جانا چاہیے کیوں کہ وہی اس کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ پر لوگ بھرتی کیے جائیں تو 2 سال کے اندر پی آئی اے کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی۔
بشیر احمد کا کہنا تھا کہ ’مالٹا، سنگاپور، ایمیریٹس ایئر لائنز ہم نے بنوائی ہیں اور آج ان کو دیکھیں کہ وہ کتنی ترقی کر چکی ہیں اور پی آئی کن حالات سے دوچار ہے‘۔