25 جولائی کے نئے ماڈل پر کام جاری

منگل 25 جولائی 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

25 جولائی 2018 کا دن غروب ہونے تک ہر حسن نثار، مجیب الرحمان شامی، ہارون رشید کو پتہ چل چکا تھا کہ اگلے دن کا سورج بلے کی اوٹ سے نکلے گا۔ پچھلے 7 برس کی محنت صاف نظر آ رہی تھی۔

ٹارگٹ وہی پرانا تھا یعنی کوئی بھی جماعت اتنی نشستیں نہ لے جائے کہ خود سر ہو جائے۔ سنہ 2002 کے الیکشن کا کامیاب سستا اور ٹکاؤ تریاقی ماڈل سامنے تھا۔ یعنی کسی آزمائے ہوئے پر ہاتھ رکھنے کے بجائے پرانے ماڈل کی گاڑیوں کے کارآمد پرزے کینیبلائز کر کے ایک ری کنڈیشنڈ گاڑی نئے ماڈل کے طور پر لانچ کر دو۔

چنانچہ سنہ 2002 میں سب نے دیکھا کہ بوتل کا لیبل نیا پر شراب وہی پرانی۔ کمال بس ایک خاص تناسب سے بلینڈنگ کا تھا۔ جھنڈے والی گاڑی کے بغیر نہ رہنے والوں کو نئی بیساکھیاں دی گئیں تاکہ وہ ان بیساکھیوں کو آپس میں لڑتے لڑاتے خود کو مصروف رکھیں اور سرپرستوں کو بہت زیادہ تنگ نہ کریں۔ یوں دنیا دکھاوے کے لیے گروپ فوٹو میں ایک ہنستا بستا جمہوری کنبہ بنا رہے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ پاکستان ایک غیر جمہوری یا نیم جمہوری ملک ہے۔

یہ 2002 ماڈل 5 برس تک (2007) کامیابی سے چلایا گیا۔ حتی کہ پہلی بار ملکی تاریخ میں ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار کی خوشی خوشی منتقلی کی بنا پڑتی دکھائی دی۔  یہ کام اسے لیے ٹھنڈے پیٹوں ہوگیا کیونکہ ایک محترمہ جو تھوڑا بہت چیلنج کرنے یا سوال اٹھانے کی صلاحیت رکھتی تھی اس کا کھٹکا صفائی سے نکل گیا۔  بی بی کا آئیڈیل ازم پریگمیٹ ازم (عملیت پسندی) سے بدل گیا۔

ہم جیسے لال بھجکڑوں کو بھی لگنے لگا گویا اب سرپرستوں نے بچوں پر اعتماد کرنا سیکھ لیا ہے۔ بچوں کو بھی شائد اندازہ ہو چلا تھا کہ فی الحال  کن کن دواؤں کو ہاتھ نہیں لگانا اور کن کن مواقع پر کس کس چیز کے لیے کتنی مقدار میں ضد کرنی ہے اور پھر مان جانا ہے۔ مگر بچے تو آخر بچے ہوتے ہیں۔  گلی محلے تھڑے سے مضر عادات بھی سیکھ کے آتے ہیں۔ اور پھر ہر ذہنی کھد بد سرپرستوں کو تھوڑا بتاتے ہیں۔

 مثلاً چارٹر آف ڈیموکریسی کے دستخط کنندگان نے غیر اعلانیہ طور پر ایک دوسرے کی باری کے احترام کا بھی شائد بالا بالا طے کرلیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سنہ 2008 یا سنہ 2018 کے دو ادوار میں زرداری اور نون نے روایتی ساس کا کردار ادا نہیں کیا اور ایک دوسرے پر بھاری داؤ پیچ لڑانے سے پرہیز کیا۔

ایک نے مذاق مذاق میں سب کو 18 ویں آئینی ترمیم کے اردگرد جمع کرلیا تو دوسرے نے اہم پارلیمانی قانون سازی پر بڑی سیاسی جماعتوں کا اتفاق حاصل کرنے میں کامیابیاں حاصل کیں۔

تس پر ان کے کان کھڑے ہونے لازم تھے جن کا انتظامِ کار ہی سیاست کی باہمی جوتم پیزار کے بل پر چلتا ہے۔ چنانچہ پرسکون ہوتے جمہوری پانی میں تھرتھلی کے لیے خان صاحب کی دھڑم دھکیل انٹری ہوئی۔

 انہیں بتدریج ایجی ٹیشن کے ذریعے روایتی سیاسی خاندانوں کو ایڑیوں پر کھڑا رکھنے کا کام سونپا گیا۔ یوں پچھلی چار دہائیوں سے یکے بعد دیگرے دو ہی سیاسی فلموں کے گھسے پٹے پرنٹ بار بار دیکھ دیکھ کر بور ہونے والے بادشاہ گروں نے نیا ہیرو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اور اپنی پوری نظریاتی، آلاتی، نشریاتی، تربیتی صلاحیت، شوقِ تبدیلی کی سرمایہ کاری پر لگا دی۔

لینا پکڑنا، توڑم تاڑی، عدلیہ، نوکر شاہی اور خود کو’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے پر ون پیج کیا گیا۔ ریورس اور فارورڈ انجینرنگ سمیت کوئی ٹیکنالوجی نہیں چھوڑی گئی۔ محکمہ زراعت سمیت تمام ہنرمند ادارے اوور ٹائم پر لگ گئے۔

معاملات کو آخری حد تک مینیج کرنے کے لیے سنہ 2002 کے ہائبرڈ پری پول تجربات کی سمری کو الماری سے نکال کے نیکسٹ لیول پر سیقل کیا گیا۔ نتائج کی بروقت ترسیل کے آر ٹی ایس نظام پر بھی پورا تکیہ نہیں کیا گیا۔

یوں 26 جولائی کی دوپہر تک مثبت نتائج حاصل کر لیے گئے۔ ایک سورج اور اس کے گرد مصنوعی سیاروں کا جھرمٹ نمودار ہوا۔ یہ عارضی نظامِ شمسی مدار میں رواں رکھنے کے لیے اگلے پونے 2 برس تک خلائی ماہرین کی پوسٹ آپریٹو کییر بھی فراہم کی گئی۔ مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ مطلوبہ خلائی نتائج حاصل ہونے کے بجائے حاصل شدہ پچھلے نتائج بھی خطرے میں پڑنے لگے۔

پہلی بار چرخِ نیل فام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خالق اپنی ہی تخلیق کو مدار سے ہٹتے ہوئے بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔  کچھ عرصہ’نہ کہہ سکا نہ سہہ سکا‘ والی کیفیت رہی۔ کیونکہ جنہیں’نیا دور نئی تخلیق‘ کی خاطر اکھاڑ پچھاڑ کے راندہ درگاہ کیا تھا بالاخر انہی عطاری لونڈوں کے پاس جانے کون سی بار جانا پڑ گیا تاکہ ’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘ کی ازیت سے تو کم ازکم عارضی نجات ملے۔ مگر اگلوں نے بھی بدلے میں بوٹی کا بکرا طلب کرلیا۔

25 جولائی 2018 اتنے برس میں ماشااللہ وہ کمبل بن گیا ہے جس سے جان چھڑانا بظاہر مشکل ہو رہا ہے۔ اس کشتم کشتا میں خالق اور خلق تو کیچڑ میں لت پت ہیں ہی خود ریاستی آئینی انگرکھا اور دستار بھی چھینٹوں چھینٹ ہو چکے ہیں۔ پر مجال ہے کہ اس بار بھی کسی نے کوئی درسِ ندامت و سبق آموز سبق لیا ہو۔

الٹا اب ایک اور 25 جولائی کا دو ہزار تئیس ماڈل انہی پرانی ڈرائنگز کی مدد سے تیار ہو رہا ہے۔  فرق بس اتنا پڑنے والا ہے کہ گزشتہ ماڈل کی ہیڈ لائٹ اگر گول تھی تو نئے ماڈل کی بتی چوکور ہوگی۔

یہی ہے مطلوب و مقصود اس انتظام کا۔  کہتا کوئی نہیں پر پتہ سب کو ہے کہ اس ریاست کا بنیادی نظام ناپائیداری کی ڈرائنگ پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسے نظام کے لیے دراصل پائیداری ہی مضرِ صحت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp