برطانوی کیئر انڈسٹری میں جدید غلامی کے کیسز بڑھ گئے، پچھلے سال کی نسبت رواں سال دوگنا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔3 مہینے میں 109 متاثرین کا ذاتی یا مالی فوائد کیلیے استحصال کیا گیا
برطانیہ کی کیئر انڈسٹری میں جدید غلامی کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔غیرملکی خبر رساں ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے مارچ کے درمیان 109 متاثرین سامنے آئے جن کا ذاتی یا مالی فائدے کے لیے استحصال کیا گیا۔ یہ تعداد2022 کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار حکومت کی طرف سے منظور شدہ اینٹی سلیوری ہیلپ لائن سے حاصل کیے گئے ہیں۔
کارکنوں کو غلامی سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کرنے والے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ استحصال کرنے والوں کی اس وقت سب سے بڑی ترجیح کیئر انڈسٹری ہے۔ رجحان میں اضافہ گزشتہ 12 ماہ کے دوران غیر معمولہ طور پر دیکھنے کو ملا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے بریگزیٹ کے بعد غیرملکی سوشل کیئر سٹاف کے لیے برطانیہ میں روزگار آسان کردیا۔
برطانیہ میں جدید غلامی کس قدر ہولناک شکل اختیار کرچکی ہے، اس کا اندازہ ایک افریقی خاتون ٹیری کی گفتگو سے ہوتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ٹیری نے بتایا کہ انہیں ایک ایجنسی کی طرف سے کیئر انڈسٹری میں کام کی پیشکش کی گئی تھی، جس کے لیے انہیں بہت سے سبز باغ دکھائے گئے۔ مثلا کمپنی نے ورک ویزا اور آمد ورفت کا بندوبست کرنے تک کا بھی کہا تھا۔ کمپنی کی طرف سے کی گئی پیشکش میں بتایا گیا تھا کہ وہ 29ہزار پاؤنڈ تک کما سکیں گی۔
ٹیری نے زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے کے لیے پیشکش قبول کر لی، وہ اپنے شوہر کے ظلم کا شکار تھی۔ چنانچہ انھیں یہ ایک اچھا موقع محسوس ہوا کہ وہ اپنے تینوں بچوں سمیت برطانیہ چلی جائیں تاہم ٹیری کو یہ ’سنہری موقع‘ کافی مہنگا پڑا۔
ٹیری اپنے ساتھ اپنی والدہ کو بھی برطانیہ لے آئی تھیں تاکہ وہ گھر میں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔ کمپنی ٹیری کو جہاں بھی کام کے لیے بھیجتی، وہاں رہائش کی سہولت بھی فراہم کرتی تاہم ان کی والدہ اور بچوں کو الگ کرائے کے گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے۔
ٹیری کے خواب کیسے بکھرے اور انہیں کس قدر زیادہ کام کرنا پڑتا تھا، یہ جان کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ میں جدید غلامی کی شکل کس قدر خوفناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں کام کے اوقات کار پریشان کن حد تک زیادہ تھے۔ دن میں 20گھنٹے تک کام کروایا جاتا تھا، ہفتے میں ساتوں دن بلایا جاتا تھا ، جبکہ دیگر وعدے بھی پورے نہیں کیے۔
ٹیری کو تنخواہ بھی 2 ماہ بعد ملی۔ بالآخر جب 2 ماہ بعد کمپنی سے اجرت ملی، تو پتہ چلا کہ اسے 2 پاؤنڈ فی گھنٹہ سے بھی کم کے حساسب سے معاوضہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں اس قدر کم معاوضے پر کام کرانا غیر قانونی ہے۔ 23 برس یا اس سے زائد عمر کے کارکنوں کو کم از کم ساڑھے 10 پاؤنڈ فی گھنٹہ معاوضہ دینا ضروری ہے۔
جب ٹیری نے اس قدر زیادہ کام اور اس قدر کم معاوضے پر شکوہ کیا تو کمپنی نے انہیں ملازمت سے برخاست کرنے اور ویزا منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔ ٹیری کو پتہ چلا کہ کمپنی کا مالک سیاسی اثرورسوخ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس سال مارچ تک حکومت نے ہیلتھ اینڈ کیئر کے شعبے میں کام کے لیے 102,000 ہنر مند غیرملکی کارکنوں کو ویزے جاری کیے گئے جو گزشتہ برس کی نسبت 171 فیصد زیادہ ہیں۔