سوات میں پیاز کی فصل کو لگنے والی بیماری سے کتنے کروڑ کا نقصان ہوگیا؟

جمعرات 27 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وادی سوات کو اگر قدرت نے ایک طرف فطری حُسن سے نوازا ہے، تو دوسری طرف اس کی زمین کو سونا اگلنے کی طاقت بخشی ہے۔ یہاں انواع و اقسام کے پھلوں کے ساتھ ساتھ صحت مند سبزیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، جو سالانہ کسانوں اور زمین داروں کے لیے کثیر زرِمبادلہ کماتی ہیں، مگر یہ سال سوات کی دوسری بڑی فصل ’پیاز‘ کے لیے کسانوں پر بھاری پڑا ہے۔

کسانوں کو کس وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا؟

سوات کے علاقہ شنگر دار کے کسان بخت نواب کہتے ہیں کہ اس سال زیادہ بارشوں کی وجہ سے پیاز کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمے والے مرض کا بروقت تعین نہ کرسکے جبکہ کسانوں کی جانب سے بار بار اسپرے کے استعمال کے باوجود فائدہ نہیں ہوا۔ بخت نواب کے مطابق جب آخر میں پتا چلا کہ یہ ’تورکے‘ نامی مرض ہے، تب تک مذکورہ مرض اپنا کام کرچکا تھا۔

‘تورکے’ مرض کیا ہے؟

‘تورکے’ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ‘کالی رنگت’ کے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر اَپر سوات افتخار احمد اس بیماری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جس مرض کو پشتو زبان میں ‘تورکے’ کہتے ہیں، اُسے اردو میں ‘سفوف پھپھوندی’ یا ‘روئیں دار پھپھوندی’ کہا جاتا ہے۔

کسان بخت نواب کہتے ہیں کہ اس سال زیادہ بارشوں کی وجہ سے پیاز کی فصل کو نقصان پہنچا ہے

اس مرض کی علامات کیا ہیں؟

افتخار احمد کہتے ہیں کہ پیاز کے پتوں پر اوّل اوّل چھوٹے داغ نمودار ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ داغ بعد میں پھیل کر پیاز کے پتوں کے ہرے رنگ کو کالے رنگ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ پتے کالے ہوجاتے ہیں، تو ان کا کلوروفل ختم ہوجاتا ہے اور یوں پودا اپنی خوراک تیار کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً پیاز کمزور رہ جاتی ہے۔ یوں اسے اسٹور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرح سے اس سے پانی رسنا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے پیاز خراب ہوجاتی ہے۔

وجوہات کیا ہیں؟

‘سفوف پھپھوندی’ یا ‘روئیں دار پھپھوندی’ کی ایک بڑی وجہ اس کا بیج ہے۔ افتخار احمد کے بقول ‘بیچ دراصل ایسی پیاز سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے، جو خود مذکورہ بیماری سے متاثر ہوئی ہوتی ہے۔ ایسا بیج جب بویا جاتا ہے، تو آگے چل کر پیداوار بھی متاثر ہوجاتی ہے۔’

یہ سلسلہ یہاں نہیں رکتا۔ افتخار احمد کہتے ہیں کہ اگلے سال جب پیاز کا بیج بویا جاتا ہے، تو پرانا متاثر شدہ بیج پھر بھی اپنا اثر دکھاتا ہے اور فصل کو متاثر کرکے ہی دم لیتا ہے۔

جس مرض کو پشتو زبان میں ‘تورکے’ کہتے ہیں، اُسے اردو میں ‘سفوف پھپھوندی’ یا ‘روئیں دار پھپھوندی’ کہا جاتا ہے

اس سال کسانوں کا کتنا نقصان ہوا؟

کسان بخت نواب کہتے ہیں کہ اب کی بار اس مرض کی وجہ سے نہ صرف پیاز کا دانہ متاثر ہوا ہے بلکہ پتّا بھی متاثر ہے۔ ‘آپ پیاز کا دانہ اُٹھائیں اور چیک کریں، تو آپ کو پتا چلے گا کہ پیاز کی اوپری سطح تو ٹھیک ہے، مگر پیندا بالکل کالی رنگت اختیار کیے ہوئے دکھائی دے گا۔ اس کی وجہ سے منڈی میں اِسے کوئی اچھے داموں خریدنے کو تیار نہیں اور بدقسمتی سے ہماری اس پر لگائی گئی رقم (جو رشتے داروں سے قرض لی گئی تھی) بھی اب واپس ملنے والی نہیں۔

سوات کے ایک اور کسان حاجی نواب کہتے ہیں کہ پچھلے سال فصل اچھی تھی، اس لیے ہمیں فائدہ ہوا تھا لیکن اس سال تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘تقریباً 10، 12 لاکھ روپے کا نقصان میرا ہوا ہے۔ ملک کی بڑی سبزی منڈیوں تک گاڑی کا کرایہ 70 تا 80 ہزار روپے ہے۔ اس طرح ایک خالی بوری کی قیمت 300 روپے ہے۔ مارکیٹ کا مزا نہیں۔ اس لیے کھیتوں میں ہی پیاز کو اِدھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔ دہاڑی دار مزدور فی کس ہزار روپے الگ وصول کرتے ہیں۔ کھیت کی زمین اجارے پر لی ہے اور اس سال وہ رقم بھی جیب سے ادا کی جائے گی۔ آگے فصل ٹماٹروں کی ہے، اگر وہ پیداوار اچھی رہی، تو امید ہے کہ اجارے کی رقم نکل جائے، تاہم اس میں کوئی 2 رائے نہیں کہ یہ سال ہمارے لیے اچھا نہیں رہا‘۔

اس سال پیاز کی بوری کی قیمت کیا ہے اور پچھلے سال کیا تھی؟

حاجی نواب کہتے ہیں کہ ایک بوری میں تقریباً 25 دڑی (125 کلوگرام) پیاز آتی ہے، جس کی اسال قیمت بمشکل 3 یا ساڑھے 3 ہزار روپے ہے۔ کچھ بوریوں کی قیمت ڈھائی ہزار بھی لگی ہے۔ اس کے مقابلے میں پچھلے سال 4 ہزار سے لے کر 6 ہزار تک فی بوری قیمتیں تھیں۔

سوات کے ایک اور کسان حاجی نواب کہتے ہیں کہ پچھلے سال فصل اچھی تھی، اس لیے ہمیں فائدہ ہوا تھا لیکن اس سال تو خسارہ ہی خسارہ ہے

سوات کی دوسری بڑی فصل

محکمۂ زراعت سوات کے اعداد وشمار کے مطابق سوات میں ٹماٹر کے بعد سب سے زیادہ فصل پیاز کی پیدا ہوتی ہے۔ سوات میں 4450 ایکڑ زمین پر پیاز کی (اندازاً) 1 کروڑ 16 لاکھ کلو گرام فصل پیدا ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پیاز سے سوات کے کسانوں کو سالانہ 11 ارب 60 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے، لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سال مرض کی وجہ سے ان کو فائدے کی جگہ نقصان ہوا ہے۔

سوات کی پیاز کن منڈیوں تک پہنچتی ہے؟

غالیگی سوات کے رہنے والے کسان شاہی نواب کے مطابق سوات کی پیاز کی بڑی مانگ ہے۔ سوات کی آب و ہوا کی وجہ سے یہاں کی پیاز کو بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی، گجرانوالہ، لاہور اور پشاورمیں اس کی بڑی مانگ ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس سال ‘تورکے’ (مرض) کی وجہ سے اسے اسٹور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب دیگر علاقوں کی پیاز آرہی ہے، جس کی وجہ سے سوات کے کسان خسارے میں ہیں۔

سوات کی آب و ہوا کی وجہ سے یہاں کی پیاز کو بے حد پسند کیا جاتا ہے مگر اس سال خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اگلے سال ‘تورکے’ کا راستہ کیسے روکا جائے؟

افتخار احمد کہتے ہیں کہ ‘تورکے’ یا ‘سفوف/ روئیں دار پھپھوندی’ سے بچنے کا ایک آسان حل یہ ہے کہ ایک ہی زمین پر بار بار پیاز کی فصل کاشت نہ کی جائے۔

دوسرا حل، مستند ڈیلرز سے مستند بیج حاصل کیا جائے، جو گندگی اور بیماریوں سے صاف ہو۔

تیسرا حل، کھیت کے متوازن خوراک کا بندوبست بھی بیماریوں کا راستہ روک سکتی ہے، یعنی جس وقت پیاز کے تخم کے لیے زمین تیار کی جاتی ہے، اُس وقت قدرتی کھاد (جسے پشتو میں ڈیران کہتے ہیں) اور متوازن خوراک زمین کو دی جائے، تو بہترنتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیت کو بروقت پانی دینے کا انتظام بھی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

چوتھا حل، فصل کے ساتھ جو گندی جڑی بوٹیاں ہیں، ان کو اگر بروقت تلف کیا جائے، تو بھی فصل کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑی حد تک ٹل جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp